سندھ حکومت تھانے بنانے، ایف آئی آر کے اندراج، تفتیش ، چالان پیش کرنے کا اختیار دے: رینجرز
کراچی (وقائع نگار+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدامنی عملدرآمد کیس کی سماعت میں عدالت نے آئی جی سندھ کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ جس امن کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ رینجرز کی وجہ سے ہوا۔ پولیس رپورٹ دیکھ کر لگتا ہے سب اچھا ہے، آپریشن کی ضرورت نہیں ، پولیس افسر وارداتوں میں ملوث ہیں اور آپ کہتے ہیں اغوا برائے تاوان ختم ہوگیا ہے۔ پولیس تفتیش نہیں کرتی اور ملزم چھوٹنے کا الزام عدالتوں کو دیا جاتا ہے۔ پولیس کی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔کام نہیں ہوتا تو گھر چلے جائیں۔ رینجرز نے بھی اپنی رپورٹ میں پولیس کی تفتیش کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ 6 ہزار ملزم پکڑ کر دئیے تھے سب چھوٹ گئے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ رینجرز کی رپورٹ چیف سیکرٹری آئی جی کیخلاف چارج شیٹ ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے پولیس رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ شہر میں ہونے والے جرائم میں نمایاں کمی آئی ہے۔چیف جسٹس نے پولیس کی کارکردگی سے متعلق رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ سے استفسار کیا کہ آپ کے سارے اعداد و شمار کا تعلق 2015 ء سے ہے جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا، وہ جس کارکردگی کا ذکر کررہے ہیں اس میں رینجرز، پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا مشترکہ کردار ہے، پولیس کا کام صرف اعداد و شمار جمع کرنا نہیں بلکہ تفتیش کرنا ہے، وہ یہ بتائیں کہ 2015 ء میں ٹارگٹ کلنگ کی جتنی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے کتنے واقعات کے ملزم پکڑے گئے، عدالت میں کتنے چالان پیش کئے گئے۔آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے بیان دیا کہ مجموعی طور پر امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا کہ بتائیں کتنے ملزم پکڑے،کتنے ملزموں کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے ؟ چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ سال 2015ء میں 159 ٹارگٹ کلنگ ہوئیں، کونسا مجرم پکڑا گیا؟ آئی جی سندھ نے بیا ن دیا کہ پولیس نے بہت کام کیا، ایئرپورٹ حملہ کیس، صفورہ گوٹھ اور ڈاکٹر ڈیبرا لوبو کے ملزمان کو بھی پکڑا ہے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ اگر 4 ہزار اشتہاری ملزم شہر میں آزاد دندنا رہے ہوں تو امن وامان کی صورت حال کا کیا بنے گا،2 ہزار دہشت گرد آزاد گھوم رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ امن ہوگیا۔ وہ جس کیسز کی بات کررہے ہیں وہ 2015 ء کے کیس نہیں ہیں اور وہ بھی ہماری مداخلت پر آپ نے پکڑے ہیں۔ 47 افراد کی لسٹ ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اغوا برائے تاوان کے واقعات ختم ہوگئے۔عدالت نے استفسار کیا کہ اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں کمی آئی ہے لیکن شارٹ ٹرم کڈنیپنگ بڑھ گئی ہے، پولیس کے بھی شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، آپ کو معلوم ہے کہ شارٹ ٹرم کڈنیپنگ کیا ہے، اس سلسلے میں عامر فاروقی نے تحقیقات کی ہیں اس بارے میں آپ کیا جانتے ہیں، ایس ایس پی عامر فاروقی نے اغوا برائے تاوان میں ملوث پولیس افسروں کے خلاف انکوائری کی آپ کے پاس آکر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا ۔ آئی جی سندھ نے عدالت کو بتایا کہ میں نے کارروائی کی ہے ، چیف سیکرٹری کو بھی پتہ ہے جبکہ چیف سیکرٹری کا کہنا تھا انہیں ایسی کسی کارروائی کا علم نہیں ہے۔ آئی جی سندھ کی جانب سے تحقیقات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرنے پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کو اتنا بھی نہیں معلوم تو پھر آپ کو وردی میں رہنے کا بھی حق نہیں ہے۔ جن کیسز کی تفتیش ہوئی ان کے ملزموں کے نام اور پتے موجود ہیں مگرآپ ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے، بتائیں مفرور ملزموں کو کیوں نہیں پکڑے۔ آپ کہتے ہیں صورتحال بہتر ہے پولیس نے وارداتوں کیلئے پرائیویٹ لوگ حاصل کر رکھے ہیں ۔ جب گواہ پیش نہیں کریں گے تو عدالت ملزم بری ہی کرے گی پھانسی تو نہیں دیگی۔ پولیس بے گناہوں کو پکڑ کر ان کے رشتے داروں کو بلا کر پیسے لیتی ہے ۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پے رول پر رہا کیے گئے لوگوں کی گرفتاری کے لیے کیا کیا گیا، پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ 70 افراد کو پے رول پر رہا کیا گیا تھا، جن میں سے 54 کے مقدمات نمٹا دیئے گئے۔ 16مقدمات زیر التوا ہیں۔18 ملزموں کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ رینجرزکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش سے نقصان ہواہے، 6 ہزار ملزم پکڑ کردئیے لیکن ناقص تفتیش کے باعث سب چھوٹ گئے۔ کئی بارحکومت کوپولیس کو غیرسیاسی کرنے کاکہا ہے۔ رینجرز وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں 11پراسیکیوٹرز دئیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے سوال کیا کہ بتائیں رینجرز کی درخواست پر پراسیکیوٹرز کیوں تعینات نہیں کرتے، چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو بناکر امن وامان کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ رینجرز نے 6 ہزار ملزم پکڑ کر دیئے تو اس کا کریڈٹ پولیس کیوں لے رہی ہے؟ 2011ء میں 1100 ملزم پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث رہا ہوئے، پولیس کو سیاست سے پاک کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چیف سیکرٹری بتائیں اہم کیسزمیں پراسیکیوٹر تعینات کیوں نہیں کرتے۔ عدالت نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگرآپ لوگوں سے کام نہیں ہوتا توگھر چلے جائیں۔ علاوہ ازیں کراچی بدامنی کیس میں رینجرز نے کراچی میں اپنے تھانے قائم کرنے اور عدالتوں میں چالان پیش کرنے سمیت ضروری اختیارات مانگ لئے ہیں۔ کراچی بدامنی کیس کی سماعت رینجرز کی عدالت میں جمع رپورٹ کے مطابق سندھ رینجرز نے کہا ہے کہ حکومت سندھ رینجرز کو اپنے تھانے قائم کرنے، ایف آئی آردرج کرنے سمیت تفتیش اور چالان پیش کرنے کا بھی اختیار دے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ رینجرز کو اختیارات سالانہ بنیادوں پر دئیے جائیں‘ ابھی سندھ حکومت رینجرز کو اے ٹی اے کے تحت تین یا چار ماہ کیلئے اختیارات دیتی ہے۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی لیکن صورتحال پھر بھی نازک ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ امن و امان کی صورتحال طویل عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے۔ ڈاکٹر عاصم کیس کے بعد رینجرز کو 11پراسیکیوٹرز دئیے گئے‘ محکمہ داخلہ سے نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا‘ صوبائی حکومت کا اقدام رینجرز کے قانونی اختیارات کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔ ایک سال کے دوران ناقص تفتیش کے باعث 1100 سے زائد ملزمان رہا ہوئے‘ رہا ہونے والے ملزمان سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ سانحہ صفورا کا اہم ملزم واقعہ سے پہلے بھی گرفتار ہوا تھا تاہم 2011ء میں پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث رہا ہوگیا۔ سندھ حکومت اور پولیس ٹارگٹڈ آپریشن میں رکاوٹ ہیں۔