سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان، ڈاکٹر صغیر بھی مصطفی کمال کے ساتھی بن گئے، ثبوت مانگنے والے پہلے سے موجود شواہد پر کام کریں: سابق ناظم کراچی
کراچی (نیوز ر پورٹر + سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ + نیٹ نیوز) متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سابق وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد نے بھی ایم کیو ایم سے راستے جدا کرلئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ الطاف حسین اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کے لئے مہاجر کارڈ استعمال کرتے رہے ہیں۔ الطاف حسین نے کارکنوں کو ٹشو پیپرکی طرح استعمال کیا‘ وہ کارکنوں کے قاتل ہیں۔ میں نے الطاف حسین سے کہا تھا کہ مہاجروںکو قتل نہ کرائو‘ گرفتار نہ کرائو‘ نعشیں مت گرائو‘ کارکنوں کے جنازے اٹھتے تھے تو وہ خوش ہوتے تھے کیونکہ انہیں نعشوں کی ضرورت تھی۔ وہ چاہتے تھے مہاجر مرتے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ اردو بولنے والوں کو قومی دھارے میں لایا جائے‘ میرا ضمیر جاگ گیا ہے‘ اس لئے مصطفیٰ کمال کی حمایت کررہا ہوں مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر صغیر احمد نے کہا کہ پا کستان میں بڑی تبدیلی آرہی ہے‘ کراچی ترقی کرے گا تو سندھ اور پاکستان ترقی کرے گا۔ کراچی میں زیادتیاں اور تباہی دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتا۔ میرا مصطفیٰ کمال سے پہلے کوئی ر ابطہ نہیں تھا‘ کراچی کی ترقی کے لئے کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میرا ضمیر جاگ گیا ہے۔ ہم دل سے ایم کیو ایم کے ساتھ نہیں تھے بلکہ مصلحت کا شکار تھے‘ اب ہمارا ضمیر اجازت نہیںدیتاکہ متحدہ کا ساتھ دیں۔ اب تک جو ہوا وہ لرزہ خیز تھا‘انہوں نے اس بات پر افسوس کاظہار کیا کہ مہاجروں کو ’’ملک دشمن‘‘ اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ تصور کیا جاتا ہے۔ لندن والے مہاجروں کے قاتل ہیں‘ ایم کیو ایم میں گراس روٹ سے پڑھے لکھے کا رکن نہیں آرہے۔ انہوں نے سوال کیا‘ نعشوں کی سیاست کون سی سیاست ہے‘ یہ کون سا نشہ ہے۔ ہم متحدہ میں وزیر بننے یا عہدہ حاصل کرنے نہیں آئے تھے۔ تحریک کو مذاق بنا دیا گیا‘ اپنی جنگ لڑنے کے لئے صوبے کی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا‘ الطاف حسین چاہتے تھے کہ لوگ مرتے رہیں‘ ان کی سیاست چلتی رہے‘ اب کراچی قوم اور سندھ پر رحم کردو انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم سے میرا28 سال کا رشتہ ہے۔ میں ایم کیو ایم کو چھوڑ رہا ہوں‘ میں ووٹرز کی خدمت نہ کرنے پر معذرت کرتا ہوں۔ میں تین بار سندھ کا وزیر رہا‘ میں نے لوگوں کو نوکریاں دیں‘ دوبار وزیر صحت اور ایک بار وزیر ماحولیات رہا۔ انہوں نے الطاف حسین کی اس بات پر تنقید کی جس میں ا نہوں نے کہا تھا کہ میںنے ’’را‘‘ کوپکار لیا توکیا ہوا۔ ڈاکٹرصغیر احمدنے اس نعرے کو مسترد کردیا کہ قائد کا جو یار ہے وہ غدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو میں زندہ رہوں گا میں ان سے خوفزدہ نہیں ہوں‘ قائد کا جو یار ہے وہ غدار ہے کا نعرہ پرانا ہے۔ یہ اب نہیں چلے گا‘ میں مہاجروں کو قومی دھارے میں لانا چاہتا ہوں‘ ہم قومی دھارے میں نہ آئے تو بہت نقصان ہوا۔ اب فون والی سیاست نہیں ہونی چاہیے کہ ’فون آگیا تو لرزہ طاری ہوگیا۔ واضح رہے وہ تین بار صوبائی وزیر کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انیس قائم خانی اور مصطفیٰ کمال نے جو بات کی وہ زبان زدِ عام ہے لیکن کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا۔’میں اِن کے ساتھ آج آیا ہوں اس سے پہلے کبھی نہیں ملا، اِن دونوں سے متعلق دسیوں باتیں سْنتے رہے لیکن کسی میں صداقت نہیں تھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اپنا کردار صاف اور واضح طور پر ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاست کسی کو خوش کرنے کے لیے نہ کریں۔ میں کمزوری اور مصلحتوں کا شکار رہا ہوں۔ لاکھ نہ چاہتے ہوئے وزارتوں میں رہا ہوں۔ آج مجھے یہی یقین ہے کہ باضمیر لوگ یہاں آئیں گے۔ ہم نے خدا کو بھلا کر ایک شخص کو خدا کا درجہ دیا ہوا تھا۔ اپنے ماں باپ اور فیملی سب کو داؤ پر لگایا اتنی خدمت اور سروس خدا کے لیے کرتے تو نہ جانے کس مقام پر ہوتے۔ زیادتیاں دیکھ کر میرے لئے اب مزید خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔ اس جماعت میں کوئی پیراشوٹ سے اتر کر آتا ہے تواس کے پاؤں دھو دھو کر پئے جاتے ہیں۔ کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو بولنے والے ملک دشمن نہیں۔آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’’را‘‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ اردو بولنے والوں کی حب الوطنی مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ ارباب اقتدار اور سنجیدہ حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ مہاجر کمیونٹی کو واپس قومی دھارے میں لایا جائے۔ مہاجر صوبے کی سیاست یا مہاجر کارڈ قوم کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’وطن کے اداس لوگو اپنے آپ کو سنبھالو ،خود کو کمتر مت سمجھو۔ جو قوم حق بات پر یکجا نہیں ہوتی اس قوم کا حاکم ہی فقط اس کی سزا ہے‘‘۔ اتنے لوگ کارواں کا حصہ بنیں گے کہ گالیاں اور پریس کانفرنسیں کم پڑ جائیں گی۔ ایم کیو ایم میں لوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں لیکن کسی سے کوئی رابطہ نہیں رکھا جاتا۔ پتہ نہیں ایم کیو ایم میں دو افراد کو لے کر اتنی گھبراہٹ اور خوف کیوں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست کرنی ہے تو ملک کے لیے سیاست کرنی چاہئے لیکن یہاں سیاست ملک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے کی جاتی ہے۔ 6 مئی 2014 کو جو واقعہ ہوا، اس میں سیاست کہاں تھی۔ سیاست خدمت کے لیے کی جاتی ہے۔ 2005 سے 2008 تک ایم کیو ایم میں رول ماڈل سیاست تھی لیکن بعد میں اقتدار سے چمٹا رہنا سیاست کا محور بنا لیا ۔ اپنی عزت کا سودا کیا گیا ۔ کبھی زیادہ قیمت پر اور کبھی کم قیمت پر ۔ میں بھی اسی نظام کا حصہ رہا ہوں ۔ تمام حالات دیکھتا رہا لیکن خون کے گھونٹ پی کر برداشت کیا لیکن اب میں نے اس سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ہے ۔ آج باضمیر لوگوں کے ساتھ شامل ہو رہا ہوں ۔ مزید باضمیر لوگ ہمارا حصہ بنیں گے۔ ہمارا ضمیر مطمئن ہے ۔ پہلے گالیاں دی جاتی ہیں پھر لوگ معافیاں مانگتے ہیں۔ یہ کیا سیاست ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مجھے وزیر اور مصطفیٰ کمال کو سٹی ناظم بنایا گیا ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ تمہیں کس نے بنایا ہے ۔ تمہیں بھی اس خدا نے بنایا ہے ، جس نے سب کو پیدا کیا ہے۔ موت کے انجیکشن ، نشے دھت ہو کر تقریریں کرنا۔ مرد اور عورت کے حوالے سے باتیں کرنا۔ کیا کوئی باضمیر شخص اپنی بہن بیٹیوں کے ساتھ یہ بات سن سکتا ہے۔ ہم ماں باپ کے جنازے چھوڑے دیئے ۔ رشتہ داروں سے تعلق ختم کر دیا لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا۔ کیا ہم نے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ را‘‘ کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی ہیں ، وہ سب کو پتہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج تمہاری وجہ سے مہاجروں کو ملک دشمن اور ’’ را‘‘ کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے ۔ ایم کیو ایم کا ایک ایک کارکن پاکستان دشمن نہیں، سب محب وطن ہیں۔ خدا کے واسطے کارکنوں پر رحم کرو ، کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنا چھوڑ دو ۔ کارکنوں کا کام کیا صرف جھنڈے لگانا یا بیریئر کھولنا ہی رہ گیا ہے۔ نجی ٹی وی سے انٹرویو میں ڈاکٹرصغیر نے کہا کہ منی لانڈرنگ سے متعفق دستاویزات کو پراپیگنڈا سمجھتا تھا۔ کیس پر برطانوی پولیس کے پاس بیانات ریکارڈ کرائے گئے۔ میں نے الطاف حسین کی تقریر میں سنا ’’دشمنوں سے مدد لے لی ہے تو کیا غضب ہو گیا‘‘ ’’را‘‘ کے کتنے لوگ ایم کیو ایم میں ہیں مجھے اس کا اندازہ نہیں۔ لیاری میں اردو بولنے والوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر نشانہ بنایا گیا۔ تحقیقاتی اداروں نے 2012ء میں عمران فاروق کا سامان قبضے میں لیا۔ سب کو پتہ ہے عمران فاروق سے قائد ایم کیو ایم کی ناراضی تھی۔ میرا کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
کراچی(ایجنسیاں+نوائے وقت رپورٹ) سابق سٹی ناظم کراچی سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ الطاف حسین کے ’’را ‘‘سے تعلقات کے ثبوت مانگنے والے پہلے ان ثبوتوں پر کام کریں جو ان کے پاس ہیں، کسی پارٹی کو جوائن نہیں کر رہے لوگوں نے پیغام سمجھ لیا ہے، دنیا بھر سے رابطے ہو رہے ہیں، صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں، جب ’’را‘‘کا کو ئی ایجنٹ نئے صوبے کی بات کریگا تو لوگ خوفزدہ ہی ہوں گے۔ ڈاکڑ صغیر احمد کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصطفی کمال نے کہاکہ متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی فنڈنگ کے ثبوت جو لوگ مانگ رہے ہیں پہلے وہ ان ثبوتوں پر کام کرلیں جو ان کے پاس موجود ہیں۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کے بیان پر کچھ نہیں کہوں گا۔ لوگوں نے ہمارا پیغام سمجھ لیا ہے دنیا بھر سے رابطے ہو رہے ہیں۔ آنے والوں سے پارٹی، مذہب نہیں پوچھا جا رہا سب ورکر ہیں۔ کسی پارٹی کو جوائن نہیں کر رہے نہ ہی تحریک انصاف سے کوئی رابطہ ہوا ہے ۔ تاقیامت پاکستان چار صوبوں پر مشتمل نہیں رہ سکتا سندھ کے عوام چاہیں گے تو صوبے ضرور بنیں گے۔ صوبے بنانا کوئی گناہ نہیں ہے، پاکستان میں بھی صوبے ضرور بنیں گے۔ جب ’’را‘‘ کا کوئی ایجنٹ نئے صوبے کی بات کریگا تو لوگ خوف زدہ ہی ہوں گے۔ پارٹی میں ایم کیو ایم کے مزید رہنماؤں کی شمولیت سے متعلق سوال پر مصطفی کمال نے کہا کہ ڈاکٹر صغیر اکیلے ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے، کوئی اور بڑی شخصیت ہمارا ہدف نہیں، کسی کو ہماری جماعت کا نام نہیں پتہ لیکن ہم نے کام بتادیا ہے پارٹی میں شامل ہونے والے سب کو خوش آمدید کہیں گے۔ سندھ کے لوگ جب چاہیں گے انتظامی صوبے بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ رحمن ملک کی باتوں کا جواب نہیں دوں گا۔ مصطفی کمال نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میںکہا کہ پہلے تنظیمی سیٹ اپ بنا لیں پھر الیکشن لڑیں گے۔ میرا ٹارگٹ عزیزآباد نہیں، پورا پاکستان ہے۔ سانحہ بلدیہ میں حماد صدیقی، انیس قائم خانی ملوث نہیں۔ فیصلے حماد صدیقی نہیں متحدہ کا قائد کر رہا ہے۔ متحدہ کے قائد نے سارا ملبہ حماد صدیقی پر ڈال دیا تھا۔ سانحہ بلدیہ پر حماد صدیقی اور انیس قائم خانی ملوث ہوئے تو مجھے پھانسی دی جائے۔ میرے نزدیک ڈاکٹر صغیر اہم آدمی ہیں۔ ڈاکٹر صغیر نے میری پریس کانفرنس کے بعد فیصلہ کیا۔ بھتہ خوری میں ایم کیو ایم ملوث نہیں، ہم زکٰوۃ، فطرہ اور کھالیں جمع کرتے تھے۔ رابطہ کمیٹی والے مظلوم ہیں ان سے ہمدردی کرنی چاہئے۔ چینلز بند کرنے کا حکم قائد (ایم کیو ایم) دیتے تھے۔ خواتین کے سامنے نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے تھے۔ ایم کیو ایم کے پکڑے گئے لڑکوں کو قاتل کس نے بنایا، لڑکوں کو بھارت میں تربیت دینے کا انتظام کس نے کیا؟ کہا جاتا ہے لڑکے بھارت اپنے رشتے داروں کے پاس گئے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹ بن کر آئے۔ فاروق بھائی کی بات کا جواب نہیں دے رہا، وہ معصوم ہیں۔ امید ہے فاروق بھائی مجھے اس جگہ نہ لے جائیں جہاں مجھے بولنا پڑے۔ ہزاروں لوگ آ رہے ہیں جنہیں پارٹی کے نام سے کوئی غرض نہیں۔ ایم کیو ایم محبت کی علامت ہے۔ ابھی 3 دن ہوئے ہیں اور فاروق بھائی الیکشن کا چیلنج کر رہے ہیں، ابھی تک کسی کی شمولیت کیلئے ٹیلیفون نہیں آیا۔ پٹی ٹی آئی کو ووٹ ایم کیو ایم کی حرکتوں کی وجہ سے پڑے۔ کسی کے پاس پرچی لے کر نہیں جائیں گے سب مل کر پارٹی چلائیں گے۔