• news
  • image

ہمارے دفتر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی کے آفس کو فوری طور پر اس معاملے کی وضاحت کرنی چاہیے

بھارتی میڈیا کا پاکستان کی جانب سے انٹیلی جنس شیئرنگ اور خودکش حملہ آوروں کے بھارت میں داخلے کی اطلاع دینے کا دعویٰ

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر پاکستان نے بھارت سے خفیہ معلومات شیئر کرلی ہیں اور پہلی بار دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے حوالے سے بھارت کو خفیہ معلومات فراہم کی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے اس سلسلہ میں اپنے ہم منصب بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی کو بتایا ہے کہ دس خودکش بمبار بھارتی ریاست گجرات میں داخل ہوئے ہیں۔ اس اطلاع کی بنیاد پرگجرات کے تمام اضلاع میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا اور دوسرے بھارتی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ناصر خان جنجوعہ نے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کو انٹیلی جنس اطلاعات فراہم کی ہیں اور بھارتی ریاست گجرات میں داخل ہونیوالے خودکش بمبار کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ اور جیش محمد سے بتایا ہے۔ اس اطلاع کی بنیاد پر دوول نے گجرات میں اعلیٰ حکام سے بات کرکے حساس تنصیبات‘ عبادت گاہوں اور عوامی مقامات کی سکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی۔ بھارتی انٹیلی جنس اداروں کا خیال ہے کہ دراندازی کا مقصد ہندوﺅں کے سالانہ مذہبی تہوار مہاشیوراتری کے موقع پر بدنظمی اور افراتفری کی صورتحال پیدا کرنا ہے جبکہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے خفیہ معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔
بھارتی میڈیا کے اس دعوے کی ابھی تک ہمارے دفتر خارجہ یا کسی بھی دوسرے ذمہ دار عہدیدار کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی اور قومی سلامتی کے مشیر کے آفس تک کے لوگ اس معاملہ میں خاموش ہیں تاہم ایک سرکاری ذریعہ کے مطابق پاکستان اور بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر مسلسل رابطہ میں رہتے ہیں اور اس طریقہ کار پر بنکاک کی دوطرفہ ملاقات میں اتفاق کیا گیا تھا۔ اول تو بھارتی میڈیا کی جانب سے چھوڑی گئی اس درفنطنی پر یقین کرنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان دشمنی میں بھارتی میڈیا اور حکام ایسی پھلجڑیاں چھوڑتے ہی رہتے ہیں اور بالخصوص پٹھانکوٹ حملہ کے بعد بھارت نے جس جارحانہ انداز میں پاکستان کیخلاف محاذ گرم کیا ہے‘ اسکے باعث بھارتی میڈیا کی جانب سے ایسا پراپیگنڈا بعیداز قیاس نہیں جس سے پاکستان کی کسی کمزوری کا تاثر ملتا ہو‘ تاہم بھارتی میڈیا کے اس دعوے پر ہمارے دفتر خارجہ اور مشیر قومی سلامتی کے آفس کی خاموشی ضرور شکوک و شبہات کو جنم دے رہی ہے۔ بھارت تو ہمارے ساتھ دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے کسی بھی سطح کے مذاکرات کی میز پر آنا گوارا نہیں کرتا اور جب بھی مذاکرات کی راہ ہموار ہوتی ہے تو وہ رعونت کے ساتھ خود مذاکرات کی بساط لپیٹ لیتا ہے اس لئے یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے کہ کسی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کے دوران پاکستان نے امریکہ کی طرح بھارت کے ساتھ بھی انٹیلی جنس شیئرنگ کا کوئی معاہدہ کیا ہوگا۔ اوفا مذاکرات میں پاکستان اور بھارت کے وزراءاعظم کے مابین دہشت گردی کے تدارک کیلئے مشترکہ اقدامات اٹھانا ضرور طے ہوا تھا جس کی بنیاد پر بعدازاں بھارت کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات میں کشمیر ایشو کو ایجنڈے کا حصہ بنانے سے ہی مکر گیا اور اوفا معاہدے کی آڑ میں دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کے اقدامات کیلئے پاکستان کو ڈکٹیشن دینے کی راہ پر بھی گامزن ہو گیا اور کسی بھی سطح کے مذاکرات کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے بھارت کیلئے قابل قبول اور اطمینان بخش اقدامات کے ساتھ مشروط کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اسی بھارتی رویے کے باعث نئی دہلی میں قومی سلامتی کے مشیروں کے پاکستان بھارت طے شدہ مذاکرات بھی سبوتاژ ہوئے اور پھر خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کی بھی نوبت نہ آسکی۔ بھارت نے دوماہ قبل پاکستان کے ساتھ خیرسگالی کے تعلقات کا ڈرامہ ضرور رچایا جس کے تحت بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پیرس میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف سے اچانک اور خوشگوار ملاقات بھی ہو گئی‘ قومی سلامتی کے مشیر بھی بنکاک میں اچانک بغلگیر ہوگئے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج بھی خندہ پیشانی کا منافقانہ اظہار کرتے ہوئے اسلام آباد آگئیں اور پھر مودی کا لاہور اور جاتی امرا کا خیرسگالی دورہ بھی ہو گیا مگر جیسے ہی پٹھانکوٹ میں دہشت گردی کی واردات ہوئی‘ سارا بھارتی میڈیا اور بھارتی حکام لٹھ لے کر پاکستان پر چڑھ دوڑے اور ہذیانی کیفیت میں پٹھانکوٹ حملے کے ملزمان کا تعین کرکے ان کیخلاف کارروائی کا پاکستان سے مطالبہ شروع کر دیا اور پھر خارجہ سیکرٹریوں کے طے شدہ مذاکرات پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات اور پاکستان کی جانب سے بھارت کی خواہشات کیمطابق کارروائی کے ساتھ مشروط کر دیئے۔ اس بنیاد پر ہی بھارتی میڈیا کے اس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی امور کی جانب سے بھارت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کی گئی ہے اور بھارت کو لشکر طیبہ اور جیش محمد کے خودکش حملہ آور بھارتی ریاست گجرات میں داخل ہونے کی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اصولی طور پر تو ہمارے دفتر خارجہ اور اعلیٰ سطح کے دوسرے حکام کو فوری طور پر بھارتی میڈیا کے اس دعوے کی تردید یا وضاحت کرنا چاہیے تھی جس سے اب تک پراسرار انداز میں گریز کیا جارہا ہے۔ اگر کل کو بھارتی میڈیا کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوتا ہے تو ہمارے لئے اس سے بڑی ہزیمت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ ہم خود پر دراندازی اور دہشت گردی کے بھارتی الزامات درست ہونے کے ثبوت بھی خود ہی پیش کررہے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کے بعد بھارت نے جتنا جارحانہ‘ درشت اور حاکمانہ رویہ ہمارے ساتھ اختیار کیا اور مبینہ دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے نامعقول تقاضے کئے‘ ہمارے حکمرانوں نے اس سے بھی زیادہ بھارت کے ساتھ نرم دلی کا اظہار اور دہشت گردوں کیخلاف ہر قسم کی کارروائی کا یقین دلانا شروع کردیا۔ کالعدم جیش محمد کے مسعود اظہر اور انکے ساتھیوں کو حراست میں لیا اور پھر گوجرانوالہ میں پٹھانکوٹ حملے کے مبینہ ملزمان کیخلاف ایف آئی آر بھی درج کرلی۔ اسی طرح ہمارے مشیر امور خارجہ اور وفاقی وزیر داخلہ سے وزیراعظم تک ہر حکومتی ذمہ دار عہدیدار بھارت کو اپنی تابعداری اور پٹھانکوٹ حملہ کے ملزمان کو کیفرکردار کو پہنچانے کا یقین دلاتا نظر آنے لگا جس سے بھارت کے اندر دہشت گردی میں ملوث ہونے کے بھارتی الزامات کو تقویت پہنچنا فطری امر تھا چنانچہ بھارت نے نہ صرف مزید جارحانہ طرز عمل اختیار کیا بلکہ ہماری طرف سے دکھائی جانیوالی کمزوریوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ہمارے حکمرانوں کے اس فدویانہ طرز عمل کی بنیاد پر ہی بھارتی متعصب لیڈران کو ہم پر کاٹھی ڈالنے کا موقع ملا اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی طرح موجودہ بھارتی جنونی وزیراعظم مودی نے بھی پاکستان پر دراندازی کے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہوئے سارک سربراہ کانفرنس کیلئے پاکستان آنے سے معذرت کرلی ہے اور اپنے طے شدہ دورہ¿ پاکستان کو پٹھانکوٹ حملہ کے ملزمان کیخلاف ٹھوس کارروائی سے مشروط کر دیا ہے جبکہ بھارت میں پاکستان مخالف فضا کو بھی پاکستان کی ہر کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی بدنیتی کے تحت گرم کیا جا چکا ہے۔ بھارتی ہندو انتہاءپسند تنظیموں ورلڈ ٹی 20 کرکٹ کپ میں شرکت کیلئے پاکستانی ٹیم کی بھارت آمد پر سخت مزاحمت کرنے اور پچ تک اکھاڑنے اور کھودنے کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنیوالے کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے کا بھی ہر ہتھکنڈا اختیار کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم سکالرشپ کے تحت کشمیری طلبہ کو جاری ہونیوالے وظائف بھی بند کر دیئے گئے ہیں اور اسکے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں ظلم و جبر کا نیا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔
اگر بھارتی حکام پاکستان اور اسکے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنیوالے کشمیری عوام کیخلاف معاندانہ پالیسیوں پر کاربند ہیں اور پاکستان کو دنیا میں دراندازی اور دہشت گردی میں ملوث ملک کے طور پر پیش کیا جارہا ہے تو اس بھارتی رویے کی موجودگی میں بھارت کو ہمارے کسی ادارے یا افسر کی جانب سے مبینہ دہشت گردوں کی معلومات فراہم کرنا پاکستان کیخلاف بھارتی الزامات کو مزید تقویت پہنچانے کے مترادف ہوگا جبکہ دشمن ملک کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ عملاً اپنی ساری کمزوریاں دشمن پر ظاہر کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری جانب سے بھارت کے ساتھ کسی بھی سطح پر کوئی انٹیلی جنس شیئرنگ نہیں کی گئی اور اس حوالے سے بھارتی میڈیا کے سارے دعوے قطعی بے بنیاد ہیں تاہم ہمارے دفتر خارجہ اور دوسرے ذمہ دار ادارے کو بھی بھارتی میڈیا کے دعوﺅں کی فوری طور پر اور باضابطہ تردید کرکے بھارتی سازشوں کا توڑ کرنا چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ بھارتی میڈیا کے دعوے درست ہیں تو قوم اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوگی کہ ”قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند“۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن