• news
  • image

چائے کی پیالی میں طوفان....؟؟

کہا جاتا ہے REALITY IS NOT WHAT IT IS, BUT HOW IT IS PERCEIVED BY THE PEOPLEاس اعتبار سے دیکھا جائے تو سارے ملک میں بالعموم اور کراچی، حیدر آباد میں بالخصوص یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ گو متحدہ قومی موومنٹ ایک مضبوط اور مستحکم Ethnic پارٹی ہے لیکن اس کا عسکری ونگ بھی ہے۔ ونگ بھی ایسا جو مخالفین اور منحرفین کو محض ناکوں چنے نہیں چبواتا بلکہ وہ سلسلہ بھی منقطع کر دیتا ہے جس سے کچھ چبایا جا سکتا ہے۔ ہندو دیو مالاﺅں کی طرح پہلے تو اس کے اندر داخلہ مشکل ہے اور جو داخل ہو جائے تو پھر باہر نکلنے کے سارے راستے مسدود ہو جاتے ہیں بھگوڑوں کا آخری سانس تک تعاقب کیا جاتا ہے، ان کےلئے کوئی پناہ گاہ بھی محفوظ نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر عمران فاروق، عظیم احمد طارق، آفاق احمد وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، اس قسم کی تنظیموں کےلئے سخت ضابطے ضروری ہوتے ہیں، مقصد محض ”باغی“ کو سزا دینا نہیں ہوتا، دیگران کو بھی یادداشت بھیجی جاتی ہے۔ DETERRANCE- HORRIBLE ایسا نہ ہوتا تو ہر کوئی پارٹی کو نورے کی کھوتی سمجھ لیتا۔ جب جی چاہا سواری کر لی،جب من چاہا اتر گئے ۔یہی وجہ ہے کہ ڈر اور خوف کی وجہ سے مرغ قبلہ نما بھی آشیانے میں محض کانپتا ہی نہیں ہانپتا ہے۔

یہ تنظیم کب اور کیسے بنی؟ کون سی سیاسی مصلحتیں تھیں جنہوں نے بظاہر ڈرپوک اور مظلوم لوگوں کو یکجا اور متحد کیا۔ ایک وقت تھا کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا جاتا تھا۔ انکے متعلق طرح طرح کے لطیفے گھڑے گئے۔ اب اس تنظیم اور اسکے لیڈر پر تنقید کرتے ہوئے قلم تھرتھراتا ہے۔ پسینہ جسم سے پہاڑی چشموں کی طرح پھوٹنے لگتا ہے۔ Seeing is Believing قافلہ شہداءکی فہرست خاصی طویل ہے۔
تقسیم کے وقت کافی مسلمانوں نے ہجرت کی۔ وہ جو مشرقی پنجاب سے آئے تھے، انہیں تو خاک اور خون کے سمندر سے گزرنا پڑا۔ دیگر حصوں کے لوگوں کو کم تکلیفیں اٹھانا پڑیں۔ پاکستان آکر اردو بولنے والوں کی نظریں کراچی پر پڑیں۔ ایک تو وہاں روزگار کے مواقع نسبتاً زیادہ تھے۔ پھر لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ A.T نقوی فنانشل کمشنر تھے۔ متروکہ جائیدادیں تھوک کے حساب سے تھیں، نقوی صاحب کی فیاضی اور دریا دلی کے قصے زبان زد عام تھے۔ حضرت جوش صاحب کو بھی اصرار کر کے وہ لائے۔ ایک سینما الاٹ کردیا یہ الگ بات ہے کہ خوشحالی انکے در پر دستک دےکر چلی گئی انکی صاف گوئی یا (برہنہ گفتاری) نے اپنی ہی کشتی کے پتوار توڑ ڈالے۔ سیم ورز کے گلزار میں پرورش پانے والا عسرت و تنگدستی کے خار زار سے رخصت ہوا۔ اصل مخاصمت کی بنیاد ایوب خان نے رکھی۔ دارالخلافے کی تبدیلی نے کراچی کی معیشت کو متاثر کیا، اکثر اہل زبان کو کہتے سنا گیا صاحب دیکھنا، ایک دن یہ سمندر بھی کھود کر اسلام آباد لے جائیگا۔ نتیجتاً صدارتی الیکشن میں مہاجروں نے محترمہ فاطمہ جناح کو سپورٹ کیا، الیکشن کے بعد گوہر ایوب نے انہیں انتقام کا نشانہ بنایا، اس ظالمانہ اقدام نے انکی سوچ کو یکجا کر دیا انہیں ایک لیڈر کی ضرورت تھی، وہ تو بھلا ہو ضیاءالحق کا جو اس سلسلے میں ممد اور معاون ثابت ہوئے، الطاف بھائی لیڈر کیا بنے، مہاجر کمیونٹی نے اپنے آپ کو دریافت کر لیا، بہت عرصہ پہلے میں نے انکی ابھرتی ہوئی طاقت کے مظاہرے دیکھے، میں 1989ءمیں لندن جا رہا تھا۔ کراچی میں ایک دوست کھانے پر کلفٹن میں ایک باربی کیو ریسٹورنٹ پر لے گئے۔ چند پٹھان بھائیوں نے ریسٹورنٹ کیا کھولا گاہکوں کا تانتا بندھ گیا۔ ہم کھانا کھا رہے تھے کہ کراچی یونیورسٹی کی ایک بس آ کر رکی۔ اس میں سے تیس کے لگ بھگ لڑکے نکلے۔ سب نے چوڑی دار پاجامے اور نیلے رنگ کی واسکٹیں پہن رکھی تھیں۔ وہ مصر ہوئے کہ انہیں مفت کھانا کھلایا جائے انکار پر لڑائی ہو گئی۔ پلیٹیں اڑیں، سالن نے کئی لباسوں پر منطقے بنائے، چھری کانٹوں کا آزادانہ استعمال کیا گیا، سب گائیک بھاگ گئے، نتیجتاً ریسٹورنٹ بند ہوگیا۔ میرے دوست کہنے لگے یہ تو ٹریلر ہے۔ اگر اصل فلم دیکھنی ہو تو کبھی بوہری بازار، الفنٹس سٹریٹ میں جائیں کارکنوں کو دیکھتے ہی دکانداروں کی گھگی بندھ جاتی ہے اور جب یہ دھمکی آمیز الفاظ میں کہتے ہیں پھر دیکھ لینا! پھر دیکھ لینا! ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہیں تو ان کا وجود بید مجنوں کی شاخ کی طرح لرزنا شروع ہو جاتا ہے۔ اصل فلم بھی 1992ءمیں دیکھ ڈالی، میں ملتان میں ڈپٹی کمشنر تھا وہاں عالمی اردو کانفرنس اور عالمی مشاعرہ کرانا چاہتا تھا۔ شاعروں سے رابطے کےلئے شوکت زیدی کمشنر انکم ٹیکس نے کراچی آنے کی دعوت دی، وہاں عالمی مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ایک بہت بڑے میدان میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ سامعین کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ سٹیج پر سو شعرا بیٹھے تھے۔ صدارت وزیر داخلہ چوہدری شجاعت حسین نے کی، مہمان خصوصی وزیراعلیٰ سندھ تھے، ان کی گاڑیوں کو سٹیج سے دو فرلانگ کے فاصلے پر روک دیا گیا۔ مشاعرے سے قبل چوہدری شجاعت نے تقریر کی۔ تقریر کیا تھی غالب کے شعر کی مکمل تفسیر تھی۔ ....
گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
سامعین نے ہوٹنگ شروع کردی، چوہدری صاحب کو تقریر ختم کرنے میں ہی عافیت نظر آئی۔ وزیراعلیٰ سے شہر میں پندرہ ایکڑ زمین کا مطالبہ کیا گیا جو اس نے بلا چوں و چرا منظور کرلیا۔ مشاعرہ اپنے ہنگام پر تھا کہ عظیم احمد طارق صاحب تشریف لائے ان کی گاڑی سٹیج تک آئی، مشاعرہ رک گیا، تمام مجمع تعظیماً کھڑا ہو گیا۔ ایم کیو ایم کے ورکرز بوڑھے شاعر جون ایلیا سے الجھ پڑے، وہ تکریماً کھڑا نہیں ہوا تھا، ”اس حرامذادے کو اٹھا کر باہر پھینک دو“ ایک ورکر چیخا، کچھ تو حیا کرو، یہ تمہارے باپ کے برابر ہے، کسی شاعرہ نے سرزنش کی۔ ”اس حرامذادی کو بھی اٹھا کر باہر پھینک دو۔ اس ”عزت افزائی“ کے دوران PANDAMONIAM ہو گیا، ہزاروں پستول نیفوں سے باہر نکل آئے۔ شاعر ہراساں ہو کر ادھر ادھر دوڑے۔ اس طرح ایک شاندار مشاعرہ پر ”وقار انداز“ میں اختتام پذیر ہوا۔ مصطفی کمال اور انیس قائم خانی نے خود ساختہ جلاوطنی سے واپس آکر جو انکشافات کئے ہیں کیا ان سے ایم کیو ایم کمزور ہو گی۔ الطاف حسین کی مقبولیت میں کوئی فرق پڑیگا؟ اور بالآخر مائنس الطاف حسین فارمولے پر عمل ہو سکے گا؟ الزامات کا لب لباب یہ ہے کہ لندن کا باسی ایک ظالم جفا جو کینہ پرور انسان ہے۔ ہندوستانی ایجنسی ”را“ سے ملک توڑنے کیلئے ساز باز کر رکھی ہے۔ ان سے خطیر رقم لیتا ہے۔ کراچی میں بھتہ خوری سے جو رقم اکٹھی ہوتی ہے وہ بھی لندن بھیجی جاتی ہے۔ کثرت شراب نوشی کی وجہ سے اسکے قویٰ مضمحل ہو گئے ہیں۔ تقریر کرتے ہوئے لفظوں میں ربط نہیں ہوتا، نشے کی حالت میں انٹ شنٹ باتیں کرتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ان الزامات میں حقیقت کتنی ہے۔ درحقیقت کوئی نیا انکشاف نہیں کیا گیا۔ یہی باتیں ذوالفقار مرزا، صولت مرزا ودیگران کئی بار کر چکے ہیں۔ عمران فاروق قتل کیس میں بھی الطاف بھائی کو مرکزی ملزم ٹھہرایا گیا ہے۔ قاتل اقبال جرم بھی کر چکے ہیں اور چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔ بالفرض ایسا ہے تو پھر اتنی میڈیا (HYPE) کیوں پیدا کی گئی ہے، اسکی دو وجوہ ہیں۔ الزامات گو پرانے ہیں لیکن انکو نہایت شدومد سے نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے، یہ لوگ نہ صرف گھر کے بھیدی ہیں بلکہ ان کا امیج بھی بہت بلند ہے۔ مصطفی کمال بین الاقوامی شہرت یافتہ ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ اسے نکھارنے اور سنوارنے میں خود ایم کیو ایم کا بڑا ہاتھ ہے۔
خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے اس نازک موڑ پر آنے کے بھی کئی معنی اخذ کیے جا رہے ہیں، کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ”سرآمد روزگارِ ایں فقیرے“ اہم مقتدر طاقتوں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ (ENOUGH IS ENOUGH) ایک گمراہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائےگا۔کیا الزامات کی صداقت کے باوصف ایسا ہو پائے گا؟ یہ نہایت مشکل کام ہے۔ الطاف نے بھٹو کی طرح مہاجروں کو زبان دی ہے۔ جائز ناجائز مراعات دی ہیں۔ مستقبل کے جھوٹے سچے سنہری خواب دکھائے ہیں، ان کا ”مسیحا“ بن کر ابھرا ہے۔ اسکی مثال ایک ایسے برگد کے پیڑ کی طرح ہے جس کے نیچے کچھ بھی نہیں اگتا۔ یہ لوگ اپنے پیچھے نمبر 2، نمبر3 نہیں چھوڑتے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن