عالمی یوم خواتین اور خواتین کی تحریکیں
آج عالمی یوم خواتین ہے۔ برصغیر کی خواتین نے ہمیشہ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کی ہے۔ 1886ءمیں ”تحریکِ اصلاحِ خواتین“ میں مسلم خواتین نے شرکت کی اور خواتین کیلئے جدید تعلیم کی اہمیت کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ آنیوالے برسوں میں خواتین نے اپنے آپ کو سیاسی میدان میں بھی منظم کرلیا تاکہ وہ تمام خواتین کیلئے حمایت حاصل کرسکیں۔ 1908ءمیں ”انجمن خواتین اسلام“ بنائی گئی جسکے ذریعہ خواتین کے حقوق‘ سماجی اصلاحات اور تعلیم کی طرف توجہ دی گئی۔ اس تحریک کی وجہ سے 1918ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ اور انڈین نیشنل کانگریس نے خواتین کے حق رائے دہی کی حمایت کی۔ 1928ءمیں فرانس سے سترہ سال پہلے ہندوستان میں خواتین کو مردوں کے برابر حق رائے دہی مل گیا۔ گورنمنٹ آف انڈیا کے ایکٹ 1935ءکے تحت 66لاکھ خواتین کو حق رائے دہی ملا اور پہلی بار فیڈرل اسمبلی کی 250میں سے 9نشستیں اور کونسل آف سٹیٹ کی 150میں سے 6نشستیں خواتین کو حاصل ہوئیں۔
1937ءکے انتخابات میں صوبائی اور مرکزی پارلیمنٹ کیلئے 90خواتین منتخب ہوئیں۔ ان میں ایک خاتون وزیر‘ دو پارلیمانی سیکرٹریز‘ ایک ڈپٹی سپیکر اور ایک ایوان بالا میں ڈپٹی پریذیڈنٹ منتخب ہوئیں۔ قانونی محاذ پر مسلم پرسنل لاءکے تحت مسلمان خواتین کو اُنکے حقوقِ وراثت کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔
1946ءمیں مسلم خواتین کی نشستیں جداگانہ انتخابات کے ذریعے پُرکرنا تھیں۔ اس الیکشن میں دو مسلم خواتین ”بیگم جہاں آرا اور بیگم شائستہ اکرام اللہ“ مرکزی قانون ساز اسمبلی کیلئے منتخب ہوئیں۔
جنوری 1947ءمیں مسلم لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا جس میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا۔ خاص طور پر برصغیر کی قدامت پسند پٹھان خواتین نے پہلی مرتبہ سڑکوں پر مارچ کیا۔ سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبہ سرحد میں تشکیل دی جانے والی ایک خفیہ تنظیم ”وار کونسل“ میں خواتین نے بڑا سرگرم کردار ادا کیا۔ اسکے ذریعے زیرِ زمین ریڈیوسٹیشن نے آزادی کی تحریک میں بہت کام کیا۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد خواتین اور انکی تنظیمیں کافی برسوں تک یہ سمجھتی رہیں کہ حکومت خود بخود خواتین کے حقوق کو وسعت دےگی۔ سماجی‘ معاشی اور سیاسی ہر سطح پر ان کی شرکت مردوں کے برابر کرےگی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔
قائداعظمؒ کی سوچ کے برخلاف خواتین کو اُن کا حق نہ ملاتو خواتین کی وکالت کیلئے لابی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آزادی کے وقت خواتین کو سیاسی‘ تعلیمی اور معاشرتی شمولیت کے حقوق مل گئے تھے لیکن مساوی حقوق کے مطالبہ کی قدامت پسند اور مذہبی گروہوں نے مخالفت کی کہ خواتین کو ترقی کے عمل میں مردوں کے شانہ بشانہ شرکت نہ کرنے دیں۔ خواتین کے مساوی حقوق کیلئے خواتین کی ایک قلیل تعداد نے کوشش شروع کی۔
اسکی ایک وجہ یہ تھی کہ تحریکِ پاکستان اور اُسکے بعد بھی چند سیاسی خاندانوں کی خواتین ہی سیاست میں آگے آئیں۔ سیاسی میدان سے باہر عام عورت نے سوشل ورک میں حصہ لیا۔
پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی شریکِ حیات بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ”اپوا“ کے نام سے ایک ویمنز والینٹیئر سروس بنائی۔ اس تنظیم کا مقصد یہ تھا کہ کم آمدنی والی خواتین کو سرگرم عمل رکھا جائے۔ مثال کے طور پر 1948ءمیں قومی اسمبلی کی خواتین ممبران نے خواتین کے معاشی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک بل تجویز کیا مگر اس بل کو اس وقت تک ایجنڈے میں بھی شامل نہیں کیا گیا جب تک ہزاروں خواتین نے اسمبلی کا گھیراﺅ نہیں کرلیا۔ ”ویسٹ پنجاب مسلم پرسنل لائ“ کے تحت جائیداد کی وراثت بشمول زرعی اراضی میں خواتین کے حق کو تسلیم کیا گیا۔
اسکے علاوہ فیملی لاءآرڈیننس 1961ءکا بھی اضافہ ہوا۔ یہ سب ”اپوا“ کی بدولت ہی ممکن ہوا۔ 1948ءمیں ہی ”انجمن جمہوریت پسند خواتین“ قائم ہوئی جس کا ایجنڈا مزدور خواتین کیلئے مساوی تنخواہ‘ خواتین کیلئے ہاسٹلز اور بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز کا قیام تھا۔
1972ءسے لیکر 1988ءتک خواتین کے حقوق کیلئے قائم قابلِ ذکر تنظیموں میں شرکت گاہ‘ عورت فاﺅنڈیشن‘ یونائیٹڈ فرنٹ فار ویمنز رائٹس تھیں۔ 1977ءمیں جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءآگیا۔ ضیاءالحق نے مذہبی سیاسی جماعتوں اور مذہبی سوچ رکھنے والے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے خواتین کے حقوق پر شب خون ماردیا۔ حدود آرڈیننس‘ قانون شہادت‘ دیت اور قصاص جیسے امتیازی قوانین بنائے۔ اسکے علاوہ سکولز‘ کالجز اور یونیورسٹیز میں جبراً چادر لینے کا حکم اور عوامی زندگی میں خواتین کی شمولیت روکنے کیلئے ہدایات جاری کی گئیں۔
اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے خواتین محاذِ عمل (WAF)نے خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے سرگرم پریشر گروپ اور لابی بنائی۔
WAFوہ پہلا پلیٹ فارم تھا جس کے ذریعے خواتین کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاست‘ سوسائٹی میں کام کرنے‘ نوکریوں سے باہر رکھنے جیسی پالیسی کیخلاف آواز اُٹھائی گئی۔ ٹریڈ یونین کی آواز میں آواز شامل کی اور جب خواتین وکلاءکی ایسوسی ایشن نے آدھی گواہی کے قانون کےخلاف احتجاج کی کال دی تو WAFنے اس کا جواب آمرانہ حکومت سے براہِ راست ٹکرلے کر دیا اور 12فروری 1985ءکو خواتین سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکل آئیں۔ اس روز تین سو خواتین ہال روڈ لاہور پر آدھی گواہی کے قانون کےخلاف ہائی کورٹ جانے کیلئے جمع ہوئی تھیں‘ جن کو پولیس کے ذریعہ روکنے کی کوشش کی گئی مگر خواتین نے اس گھیراﺅ کو توڑ ڈالا جس کے بعد اُن پر لاٹھیوں اور آنسو گیس کی بوچھاڑ کردی گئی۔ اس لڑائی میں بہت سی خواتین زخمی ہوئیں جبکہ زیادہ تر کو کوئینز روڈ تھانے کی حوالات میں بند کردیا گیا مگر خواتین نے ہمت نہ ہاری۔
اس دن سے ”12فروری پاکستان کی خواتین کے دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ آج بھی پاکستان کی عورت اپنے اُن سیاسی‘ سماجی اور معاشی حقوق کیلئے جدوجہد کررہی ہے جس کا وعدہ قائداعظمؒ نے پاکستان بناتے وقت کیا تھا کہ پاکستان اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک مرد اور خواتین شانہ بشانہ جدوجہد میں شریک نہ ہوں۔