امریکہ میں پاکستانی فیملی نے وطن آکے شادی منائی
برادرازم شاہد بٹ کے بھتیجے فاران آصف کی سادہ اور آسودہ شادی میں شرکت کا موقع ملا۔ امریکہ میں رہنے والی یہ فیملی محترمہ لبنیٰ آصف کی پاکستانی کلچر سے محبت کی وجہ سے پاکستان میں آئی۔ لبنیٰ جی دولہے فاران آصف کی والدہ ہیں۔ ہم تو شاہد بٹ کے دوست ہیں، نعیم اور ذوالقرانین نے مجھے اور نامور ٹی وی منیجر اور آرٹسٹ خاور نعیم ہاشمی کو بھی اس اچھی شادی میں شرکت کے لئے تیار کیا۔ شاہد بٹ کی محبت بھی بہت بڑا محرک تھی۔
لبنیٰ آصف مشہور شاعر سیف الدین سیف کی بھتیجی ہیں اور خود بھی ایک ادبی شخصیت ہیں۔ جب پاکستان میں تھیں تو بہت ادبی سرگرمیاں بھی کرتی تھیں۔ کتاب اور خواب سے بھی بہت ذوق وشوق تھا۔ یہ شادی مجھے پسند آئی کہ امریکہ سے خواتین وحضرات پاکستان میں شادی منانے آ گئے شادی تو پاکستان ہی میں منائی جا سکتی ہے۔ مجھے مسیحی رہنما جے سالک یاد آئے کہ وہ شادیوں میں پروٹوکول اور غیر ضروری سکیورٹی کے خلاف ہیں۔ ایسے لوگوں کو شادیوں پر بلانا چھوڑ دینا چاہیے۔
کوئی وزیر آئے بھی سہی تو گاڑی سے جھنڈا اتار کر ایک عام آدمی کی طرح شریک ہو۔ ویسے بھی وزیروں پر لازم ہو کہ وہ عام طور پر بھی گاڑیوں پر جھنڈا نہ لگایا کریں۔
شادیوں پر پروٹوکول اور سکیورٹی کی وجہ سے بڑی اذیت اور ذلت ہوتی ہے۔ بہت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور عام لوگ جو خلوص اور محبت سے شادی میں شریک ہوتے ہیں بہت خراب ہوتے ہیں۔ شادی ہال میں داخلے سے لے کر کسی حکمران کی موجودگی تک بڑی بدمزگی ہوتی ہے۔ میزبان بھی صرف انہی کی خاطر داری اور خوشامدانہ اہتمام میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
شرفاء کے خیال کے مطابق ان لوگوں کو شادی پر بلانا ہی نہیں چاہیے جو پروٹو کول اور سکیورٹی کے محتاج ہوتے ہیں ۔ میں نے لبنیٰ آصف کے بیٹے کی شادی میں کسی ایسے آدمی کو نہ دیکھا بہت سکون اور آسودگی سے سب لوگ گپ شپ کرتے رہے۔ ملتے ملاتے رہے۔
میں گرچہ دولہے والوں کا عزیز یا رشتہ دار یا دوست وغیرہ نہ تھا میں تو صرف شاہد بٹ کا دوست ہوں اور اسے بہت سی باتوں کی وجہ سے پسند کرتا ہوں، اس شادی میں برادرم ذوالقرانین اور نعیمہ آ رہے تھے اور میرے دل کے قریب خاور نعیم ہاشمی کی شرکت کا بھی سنا تو میں بھی آ گیا۔ آکر معلوم ہوا کہ میں نے اچھا کیا، شاہد بٹ ہمارے آس پاس رہے۔ لگتا تھا کہ جیسے صرف ہم اس کے مہمان ہوں۔ دولہے کی والدہ محترمہ لبنیٰ آصف علی ہماری خوب دیکھ بھال کرتی رہیں۔ پورے ہال میں کسی کو بھی ہم جانتے نہ تھے۔ مگر کئی لوگ ہمیں آکے ملے تو ہمیں یقین آیا کہ ہم بھی باقاعدہ مدعو کئے گئے ہیں ۔ دولہے کی والدہ لبنیٰ آصف نے بہت مہربانی سے ہمارا دل جیت لیا۔ اجنبیت یکسر اپنائیت میں بدل گئی، وہ ہمیں دولہا دلہن سے ملوانے سٹیج پر بھی لے گئیں۔میں شادیوں میں بالعموم نہیں جاتا۔ مگر یہ شادی اتنی سکون و راحت والی تھی کہ میں نہ آتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میں نے اپنا نقصان کیا ہے۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی کا بھی یہی خیال تھا۔ وہ بھی کم آمیز آدمی ہے اور بہت زیادہ ہجوم والی محفلوں سے کتراتا ہے۔
یہاں امریکہ سے آئے مہمان کچھ زیادہ تھے۔ لبنیٰ جی نے بتایا کہ وہ کچھ دنوں میں امریکہ جانے والے ہیں۔ لبنیٰ کی تربیت کا اثر ہے کہ ان کے بہت عزیز رشتہ دار اور نوجوان اپنے کلچر سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان سب کا خیال ہے کہ وہ پاکستان میں شادی کریں گے۔ ورنہ یہ شو ہو گا کہ پاکستان آ کے شادی کریں گے۔ شادیاں آپس میں بھی ہوں مگر پاکستان آ کے اپنوں کے پاس اپنے کلچر میں اور اپنے ماحول میں جو شادی کا مزا ہے۔ وہ پردیس میں کہاں۔؟
ان بچوں میں شاہد بٹ کی وجہ سے پاکستانیت سے جڑنے کی ایک آرزو نے زور پکڑا ہے۔ شاہد کی والدہ کی وجہ سے بھی پاکستان سے محبت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ لبنیٰ نے یہاں شعر و ادب سے بھی بہت دلچسپی رکھی۔ ان کی فیملی کا فیض احمد فیض سے بھی تعلق رہا وہ لاہور میوزیم میں لائبریرین کی حیثیت سے بھی کام کرتی رہی ہیں۔ بہت کتابیں لکھنے اور پڑھنے کا شوق دل میں پیدا ہوا۔
لبنیٰ بی بی کو یہ جملہ بہت پسند آئے گا۔ کتابیں گھروں کی طرح ہوتی ہیں ان میں رہنا چاہئے۔
لاہور میوزیم میں سے ایک رسالہ نکلتا تھا۔ اس کی ادارت کا اعزاز بھی انہیں حاصل رہا۔ ان کے بیٹے دولہا میاں فاران آصف بھی امریکہ میں کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ اپنے چھوٹے بیٹے ایقان آصف کی شادی بھی لبنیٰ آصف پاکستان میں آ کے کریں گی۔ مجھے یقین ہے کہ اس شادی میں شرکت کی مسرت ہمیں بھی حاصل ہو گی۔ امریکہ سے آئے ہوئے بچوں بچیوں کو خالصتاً پاکستانی ماحول میں گھلے ملے دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔ اگر بیرون ملک رہنے والے صرف یہی کریں کہ مختلف تقریبات پاکستان آ کے کریں تو بہت فرق پڑے گا۔ مہاجرت کے احساس میں کمی ہو گی۔ اپنوں سے روابطہ بڑھیں گے۔ سادگی اور آسودگی میں زیادہ لطف آئے گا۔ امریکہ میں پاکستانی فیملیاں صرف شادی بیاہ کے موقعوں پر وطن آ جایا کریں تو کمال ہوجائے۔