مصطفی کمال بمقابلہ فاروق ستار مگر چودھری نثار
صرف ایک بات مصطفی کمال بتا دے کہ وہ ایم کیو ایم کی طرف سے ناظم کراچی کے منصب تک پہنچا۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس نے بہت زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ جس کی تعریف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے بھی کی۔ آج کل یہ نعرہ کراچی میں گونجنے والا ہے۔ مصطفی تیرے جانثار۔ بے شمار بے شمار۔
وہ صرف یہ بتا دے کہ اسے کس نے مجبور کیا کہ وہ کراچی چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ کیا یہ الطاف حسین کا حکم تھا؟ تو یہ حکم دینے کی نوبت کیوں آئی۔ اور وہ اتنا عرصہ دبئی میں گوشہ نشینی میں کیوں رہے۔ اب اچانک وہ کراچی میں کیوں آئے یا لائے گئے؟
وزیر داخلہ چودھری نثار مجھے اپنی کئی باتوں کی وجہ سے پسند ہیں۔ وہ بہت زبردست باتیں کرتے ہیں جو سیاستدان نہیں کر سکتے۔ مگر کبھی کبھی وہ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے بلکہ پریشانی ہوتی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ مصطفی کمال کی باتیں صرف لفاظی ہیں۔ بات کسی کے حق میں ہو یا مخالفت میں ہو اس کے لئے لفظ ہی استعمال کئے جاتے ہیں۔ چودھری نثار بھی لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔ مصطفی کمال جو کہہ رہے ہیں تو وہ ثبوت پیش کریں۔ پاکستان میں کسی نے ثبوت پیش کیا ہے۔ یہ بھی نہیں بتایا ہے انہوں نے اپنا بیان اپنا کردار کیوں بدل لیا۔ یہ تبدیلی ہمارے سیاستدانوں میں آتی رہتی ہے۔ یہ تبدیلی عمران خان میں بھی بہت آئی ہے۔
میں نے کل ٹی وی چینل پر ایک پروگرام دیکھا اس میں پہلے جو کچھ کہا گیا تھا اور اب جو کہا جا رہا ہے اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مصطفی کمال اور ڈاکٹر صغیر کی پہلی اور اب کی باتیں اور اس کے ساتھ چودھری نثار کی باتیں۔ ان کے انداز اور اسلوب میں کوئی فرق نہ تھا۔ کچھ باتیں چودھری نثار ہمیں نہ بتائیں مگر سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی کو بتائیں۔ میں انہیں کبھی کبھی پیار سے راضی برضا ربانی کہتا ہوں۔ وہ پہلے ’’صدر‘‘ زرداری سے اتنے راضی نہ تھے۔ انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ پھر ڈاکٹر بابر اعوان انہیں منانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے۔ مگر اس کے بعد بابر اعوان کو بھی وزارت سے نکال دیا گیا۔ رضا ربانی پھر بھی چیئرمین سینٹ تو بن گئے جو وہ پہلے بھی اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھتے تھے۔ مگر بابر اعوان کالم نگار اور تجزیہ نگار بن گئے۔ مبارک ہو۔
چودھری صاحب نے ’’وہ‘‘ بات سپیکر اسمبلی ایاز صادق کو بھی بتانے کا اعلان کیا تھا مگر ایاز صادق کو الیکشن کمشن نے نااہل قرار دے دیا۔ اس کے باوجود وہ دوبارہ منتخب ہو کر آ گئے اور سپیکر بھی بن گئے۔ جبکہ بابر اعوان کے لئے دوبارہ سینٹ کا ممبر بننا ممکن نہیں ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک سیاسی دانشور ہیں۔ بہادر آدمی ہیں۔ دوستوں کے دوست ہیں۔ میں بھی انہیں اپنا دوست سمجھتا ہوں۔ مگر میرے جیسے ان کی دوستی کے قابل کہاں؟ وہ میرے محسن ہیں۔
برادرم فاروق ستار بار بار کہتے ہیں کہ 1992ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا مگر 2016اور 1992ء میں بہت فرق ہے۔ تب فاروق ستار ایم کیو ایم میں کیا تھے؟ اب تو وہ الطاف بھائی کے ترجمان ہیں۔ مگر وہ اس منصب کے اہل نہیں کہ وہ شراب نہیں پیتے۔ میری ان سے گزارش ہے کہ وہ کبھی اپنے دل کی ترجمانی بھی کریں۔ جو اپنے لیڈر کا غلام ہو وہ خود کبھی لیڈر نہیں بن سکتا۔ کبھی تو کوئی کام کوئی بات اپنے دل کی مرضی سے بھی کریں۔
مصطفی کمال کی کمال کی پریس کانفرنس میں میرے دوست حیدر عباس رضوی نظر نہ آئے۔ وہ کہاں ہیں۔ شاید چودھری نثار جانتے ہوں کہ وہ وزیر داخلہ ہیں۔ حیدر صاحب تقریر اچھی کرتے ہیں۔ بیچ بیچ میں اشعار بھی پڑھتے ہیں مگر ایم کیو ایم کے کسی بھی شخص کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حیدر عباس رضوی کب میدان میں آئیں گے؟ مصطفی کمال سے بڑھ کر حیدر عباس رضوی تھے مگر حیدر نے مصلحت اور مصالحت سے کام لیا۔ اب تو الطاف حسین کہیں نہیں ہیں۔ مصطفی کمال بمقابلہ فاروق ستار۔ مگر لیڈر صرف الطاف حسین ہیں؟ کسی ایم کیو ایم کے اہم آدمی کی تقریر میں کئی دفعہ الطاف حسین کا ذکر ہوتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کا ذکر کم کرتے ہیں اور الطاف بھائی کا ذکر بہت کرتے ہیں۔ بھائی کا لفظ لیڈر کا متبادل بن گیا ہے۔ جیسے بی بی کا لفظ لیڈر کے معانی دینے لگا تھا۔ کسی دوسری خاتون سیاستدان کے لئے بی بی کا لفظ عام نہیں ہوا۔ ایم کیو ایم میں ہر بندہ بھائی ہے۔ فاروق ستار بھائی، مصطفی کمال بھائی، مگر اب الطاف بھائی کی بجائے الطاف صاحب کہا جانے لگا ہے۔ اللہ خیر کرے۔
سنا ہے الطاف بھائی بہت بیمار ہیں۔ برادرم شعیب بن عزیز کے گھر میں ایک دوست نے بتایا کہ الطاف بھائی قومے (بے ہوشی) میں چلے گئے ہیں۔ اب وہ اس قابل نہیں کہ ایم کیو ایم کو سنبھال سکیں مگر جب تک ان کی سانسیں چل رہی ہیں ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تو بھی کہیں نہ کہیں پڑی رہے گی۔ مصطفی کمال کے لئے یہ وقت بہت سوچ سمجھ کے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ کام بروقت بھی ہے اور برمحل بھی اور برملا بھی ہے کوئی اگر مصطفی کمال کا مقابلہ آفاق احمد سے کرتا ہے تو وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ مصطفی کمال اور آفاق احمد میں بڑا فرق ہے۔ دونوں کے مقاصد مختلف ہیں۔ طریق کار الگ الگ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ الطاف بھائی اب کسی کام کے نہیں رہے۔
ان کی عمر اور بیماری کے علاوہ برطانوی حکومت بھی اب سمجھتی ہے کہ وہ اس قابل نہیں کہ ان سے کوئی اور کام لیا جا سکے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اور دوسرے مقدمات؟ الطاف بھائی کو تھانے یا کسی تفتیشی دفتر میں حاضر ہونے کا حکم دینا اچھا نہیں ہے۔ ہر کسی کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے؟
الطاف بھائی کی کسی طرح کی تفتیش کے لئے ’’وزیر داخلہ‘‘ رحمان ملک کو بھی شامل تفتیش کرنا چاہئے مگر وزیر داخلہ چودھری نثار مولانا عبدالعزیز کی طرح الطاف حسین کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں۔ ایم کیو ایم والے چودھری صاحب کو گالیاں نکالتے تھے۔ اب دعائیں دیتے ہیں۔ بہرحال میرا خیال ہے کہ چودھری نثار کا دم غنیمت ہے۔ وہ کبھی کبھی ایسی بات کرتے ہیں جو کوئی سیاستدان نہیں کر سکتا۔ مگر کوئی تو بتائے کہ حکومت کیا کرنا چاہتی ہے۔