جعلی ڈگری کیس: عوام جب تک کرپٹ لوگوں کی حوصلہ شکنی نہیں کریں گے مقدمات آتے رہیں گے: چیف جسٹس
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ میں جعلی ڈگری کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی کوشش ہونی چاہئے کہ جن کا کردار صحیح نہیں اور وہ الیکشن لڑنے کے اہل نہیں ہیں ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں۔ عوام الناس اور معاشرہ جب تک کرپٹ لوگوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرے گا تو مقدمات آتے رہیں گے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ وکلاء بار میں اس کلچر کو فروغ دیں کہ مقدمات کے التواء کی درخواستیں نہ کی جائیں جس طرح سے مقدمات بڑھتے جا رہے ہیں اگر ان مقدمات کو وقت کے ساتھ ساتھ نہ نمٹایا گیا تو سارا نظام ختم ہو کر رہ جائے گا۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے۔ سماعت کے دوران کامران مرتضیٰ نے اپنے موکل کے حوالے سے استدعا کی کہ ان کے حوالے سے ایسی بات نہ لکھی جائے کہ جس سے ان کے لئے مستقبل میں مسائل پیدا ہوں اب تو ڈگری کی شرط بھی ختم ہو چکی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو یہ پہلے سوچنا چاہئے تھا آپ مان لیں آپ سے غلطی ہوئی آپ اگلی بار ہمارے پاس آئیں گے تو فیصلہ کر دیں گے۔ اس پر عدالت نے نظرثانی کی درخواست خارج کر دی۔ عدالت نے خواجہ محمد اسلام، مولوی حنیف، یوسف ایوب خان اور دیگر کے مقدمات کی سماعت کی جبکہ سپریم کورٹ نے ثمینہ خاور حیات جعلی ڈگری کیس کی سماعت 6 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کو طلب کر لیا ۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز سماعت کی اس دوران درخواست گزار کی جانب سے طارق محمود پیش ہوئے اور انہوںنے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن اور ہائر ایجوکیشن کمشن ان کی موکل کی سند کی تصدیق کر چکے ہیں۔ اس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کی سند کے حوالے سے دو مختلف رائے ہیں اس کے لئے ہم چاہتے ہیں کہ کنفیوژن ختم ہو جائے۔ ثمینہ خاور حیات نے عدالت کو خود بتایا کہ آپ یونیورسٹی انتظامیہ کو بلاکر تصدیق کر لیں جس پر عدالت نے یونیورسٹی انتظامیہ کو طلب کرتے ہوئے سماعت چھ اپریل تک ملتوی کر دی۔