ٹرمپ کیخلاف احتجاج جاری‘ نیویارک میں کفن پوش مظاہرہ
نیویارک (اے پی پی) امریکہ کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف کفن پوش مظاہرین نے احتجاج کیا۔ امریکی خبررساں ادارے کے مطابق مختلف ریاستوں میںصدارتی امیدوار ٹرمپ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز نیویارک میںدرجنوں مظاہرین نے ٹرمپ آرگنائزیشن کے ہیڈکوارٹر کے باہر ڈونلڈ ٹرمپ کے نفرت انگیز بیانات کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں پوسٹر اور بینر اٹھا رکھے تھے۔ چند مظاہرین نے ٹرمپ ٹاور کے سامنے کفن لپیٹ کر سڑک پر لیٹ کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ امریکہ میں تشدد کے واقعات میں روزانہ 90افراد ہلاک ہوتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے کو مذاق سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب صدر اوباما نے خبردار کیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے لئے صدارتی امیدواروں کی بازاری زبان سے بیرون ملک امریکہ کے تشخص کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہ امریکی کانگریس کے ارکان کے ایک گروپ سے گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے کہا اس کا تعلق امریکی برانڈ سے بھی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اور جو کہتے ہیں،دنیا اس کو دیکھتی اور سنتی ہے۔ انہوں نے آئرش وزیراعظم کے ہمراہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس برانڈ کو تار تار ہوتا ہوا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر امریکی ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے تو یہ دنیا کو درپیش 10 بڑے خطرات میں سے ایک خطرہ ہو سکتا ہے۔ اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ ( ای آئی یو) کی جانب سے جاری کی گئی درجہ بندی میں ٹرمپ کی صدارت کو برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج اور جنوبی بحیرہ چین میں لڑائی سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ تحقیقاتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ کو صدارت ملنے کا مطلب عالمی معیشت میں بے چینی اور امریکہ میں سیاسی اور سکیورٹی سے متعلق خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے امید نہیں ٹرمپ ہلیری کلنٹن کو شکست دے پائیں گے جو اس کے خیال میں ڈیموکریٹس کی متوقع امیدوار ہیں۔دوسری طرف رائٹرز کے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکی خواتین کا نصف ٹرمپ کے صدر بننے کی حمایت نہیں کرتا۔ یکم مارچ سے 15 مارچ تک ہونے والے اس سروے میں 5400 افراد نے رائے کا اظہار کیا اور نصف خواتین نے ٹرمپ کے صدر بننے کو نامناسب کہا۔ امریکہ کی آبادی کا نصف خواتین ہیں اور 1996ء کے بعد کے انتخابات میں خواتین ووٹرز کی تعداد مردوں سے زیادہ رہی ہے۔ خیال رہے ٹرمپ کی حمایت نہ کرنے والی خواتین اس سے قبل 40 فیصد تھیں۔