بابا ٹلّ پَرویز مشرف کی پارٹی میں ؟
16 مارچ کی رات اور 17 مارچ کی صبح تک مجھے ہرنیوز چینل نے مایوس کِیا ۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ای سی ایل میں تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیںعلاج کے لئے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ اپنی اہلیہ محترمہ صہبا پرویز اور
پروٹوکول افسروں کے ساتھ دُبئی جانے کی تیاری کر رہے تھے کہ وزارتِ داخلہ کے ترجمان کا بیان آگیا کہ ’’ ابھی تک وزارتِ داخلہ کو پرویز مشرف صاحب کے بیرونِ ملک جانے سے متعلق سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ نہیں مِلا، فیصلہ مِلنے پر ہی وزارتِ داخلہ کوئی کارروائی کرے گی ‘‘۔ مجھے سُن کر خوشی ہُوئی کہ وزارتِ داخلہ کم از کم میڈیا والوں کو "Day and Night" سروس تو فراہم کرتی ہے۔ پھر مَیں سو گیا۔
مَیں نے خواب میںدیکھا کہ مَیں بابا ٹلّ کے وسیع و عریض خوبصورت ڈرائنگ روم میں اپنے مخصوص سنگل صوفے پر بیٹھا ہُوں اور میرے سامنے ڈبل صوفے پر بابا ٹلّ اپنے دونوں ہاتھ اوپر اُٹھائے کچھ پڑھ رہے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو صاف کِیا اور میری طرف مسکراتے ہُوئے دیکھا۔ مَیں نے کہا بابا ٹلّ شاید آپ دُعا مانگ رہے تھے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ جی ہاں! مَیں نے ربّ ِغفورورحیم سے یہ دُعا مانگی ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف خیریت سے علاج کے لئے بیرونِ ملک چلے جائیں اور صحت یاب ہو کر وطن واپس آ جائیں اور ملک و قوم کی خدمت کریں!‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! کہیں آپ پرویز مشرف صاحب کی پارٹی میں شامل تو نہیں ہوگئے ؟ ۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ مَیں صِرف اتنا ہی کہوں گا کہ پرویز مشرف صاحب جنابِ آصف زرداری اور جنابِ الطاف حسین سے بڑے لیڈر ہیں‘‘۔
مَیں ۔ وہ کیسے؟
بابا ٹلّ ۔ ’’ جناب آصف زرداری جون 2015ء میں اسلام آباد میںجرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کر کے دُبئی چلے گئے تھے اور اب امریکہ میں ہیں ۔ اُن کی پارٹی کے لوگ اُن کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کچھ لوگوں نے تو ’’ بتّی بال کے بَنیرے اُتّے ‘‘ رکھی ہُوئی ہے اور بعض لوگ تو کراچی ائر پورٹ پر ہی رہتے ہیں ۔ اب تو اُن کی چہیتی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری نے بھی پیغام بھجوا یا ہے کہ ’’ اچھی سی گڑیا لانا ۔ پاپا جلدی آ جانا‘‘ ۔
مَیں۔ بابا ٹلّ جی !۔ جنابِ زرداری وطن واپس کیوں نہیں آ رہے ؟ ۔
بابا ٹلّ ’’وہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کاانتظار کر رہے ہیں ، اُن کا خیال ہے کہ جنرل راحیل شریف نے جرنیلوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے سلسلے میں اُن کے بیان کا بُرا منایا ہے ‘‘۔
مَیں ۔ اور جناب الطاف حسین؟ وہ تو خود کو پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہتے ہیں ۔ پھر پاکستان آ کر قوم کی خدمت کیوں نہیں کرتے ؟ ۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ دراصل الطاف بھائی پر پاکستان میں مختلف قِسم کے مقدمات ہیں اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ سے امداد لینے کا الزام تو بہت ہی خطرناک ہے اور جب پاکستان میں فاروق ستار اور وسیم اختر نے اُن کا کاروبارِ سیاست بخوبی سنبھال رکھا ہے تو کیا غم؟‘‘۔
مَیں اور سیّد مصطفی کمال اور اُن کے ساتھی ۔ وہ تو جنابِ الطاف حسین کو اب الطاف بھائی نہیں بلکہ الطاف صاحب کہتے ہیں ؟۔
بابا ٹلّ ۔’’ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ؟‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! ہم پرویز مشرف صاحب کی بات کر رہے تھے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ مَیں نے اخبارات میں خبر پڑھی تھی، آپ نے بھی پڑھی ہوگی کہ سپریم کورٹ کے اِس فیصلے پر کہ ’’ وفاقی حکومت جنرل (ر) پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا خود فیصلہ کرے ‘‘ ۔ میاں شہباز شریف ، جناب اسحاق ڈار ، چودھری نثار علی خان سمیت اور مسلم لیگ ن کے کئی دوسرے راہنمائوں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دِیا ہے کہ پرویز مشرف صاحب کو بیرونِ ملک جانے دِیا جائے!‘‘۔
مَیں۔ پھر وزیراعظم صاحب یہ مشورہ مان کیوں نہیں لیتے؟۔
بابا ٹلّ’’ جب کوئی نون لیگی لیڈر جنابِ وزیراعظم کو یہ مشورہ دیتا ہے تو وہ اُس سے پوچھتے ہیں کہ ’’ یار ! جے اوہ فیر پاکستان واپس آگیا تاں اوہنوں کون سانبھے گا ؟‘‘۔
مَیں ۔ کیا وزیراعظم ، جنابِ پرویز مشرف سے ڈرتے ہیں؟۔
بابا ٹلّ۔ اگر پرویز مشرف پاکستان کی کسی جیل میں یا اپنے گھر میں نظر بند ہوں تو وزیراعظم اُن سے نہیں ڈرتے لیکن اگر وہ اپنی آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کی حیثیت سے میدان میں آ گئے اور اُنہوں نے جلسے جلوسوں سے خطاب کرنا شروع کِیا تو جنابِ وزیراعظم کے لئے مسائل تو پیدا کرسکتے ہیں‘‘۔
مَیں ۔ کیا 2018ء سے پہلے عام انتخابات ہوسکتے ہیں ؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ کیوں نہیں ؟ اگر وفاقی اور پنجاب حکومت کے خلاف مولانا فضل اُلرحمن کی قیادت میں 25 مذہبی جماعتوں کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰؐ کامیاب ہوگئی تو؟‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! اگر تحریک کی کامیابی کے بعد نئے انتخابات ہُوئے تو عوام مذہبی جماعتوں کو تو بھاری مینڈیٹ نہیں دیں گے؟ ۔
بابا ٹلّ ۔’’ مولانا فضل اُلرحمن اِس حقیقت کو خود تسلیم کرتے ہیں لیکن اُن کا یہ دعویٰ بھی تو ہے کہ ’’ ہم کسی بھی حکومت کو گِرا سکتے ہیں ‘‘۔
مَیں ۔ فرض کِیا نئی ’’ تحریکِ نظامِ مصطفیٰؐ‘‘ کے ذریعے وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کو گِر ا دے تو پھر نگران حکومت بنے گی اور پھر انتخابات؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’ظاہر ہے یہ تو ہوگا !‘‘
مَیں ۔ اور جناب پرویز مشرف؟
بابا ٹلّ ۔ ’’ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ عام انتخابات میں عوام کا بھاری مینڈیٹ حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں؟۔ شاید عمران خان کو بھاری مینڈیٹ مِل جائے؟ اور وہ پرویز مشرف کو اپنا اتحادی بنالیں اورمولانا فضل اُلرحمن کا کیا ہے؟ وہ تو ہر حکومت کے اتحادی بن جاتے ہیں‘‘۔
مَیں ۔ بابا ٹلّ جی! آپ اپنے لڑکپن کے جھنگوی دوست علاّمہ طاہر اُلقادری کی پاکستان عوامی تحریک میں بھی شامل تو نہیں ہُوئے۔ کہیں آپ جناب پرویز مشرف کی پارٹی میں شامل تو نہیں ہو رہے؟۔
بابا ٹلّ ۔ ’’اثر چوہان صاحب آپ کو یاد ہوگاکہ جب معزول وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے بڑے ملزم کی حیثیت سے مقدمہ چل رہا تھا تو پیپلز پارٹی کے بچے کُھچے لوگ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ’’ ابھی تک رسّی کا وہ پھندا نہیں بَنا جو قائدِعوام، فخر ایشیا ذوالفقار علی بھٹو کے گلے میں ڈالا جاسکے!‘‘۔
مَیں ۔ اِس کے باوجود بھٹو صاحب کو پھانسی ہو گئی ؟
بابا ٹلّ ۔ ’’اِس لئے کہ صدرِ پاکستان جنرل ضیاء اُلحق تھے ۔ وزیراعظم نواز شریف سِویلین وزیراعظم ہیں ۔ مَیں دعوے سے کہتا ہُوں کہ میاںنواز شریف ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو پھانسی نہیں دِلوا سکتے۔مَیں سوچتا ہُوں کہ کیوں نہ مَیں اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت پرویز مشرف صاحب کی پارٹی میں شامل ہو جائوں ؟ ‘‘ ۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امجد وہاں آگئے۔ بابا ٹلّ اُن سے بغل گِیر ہُوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بابا ٹلّ کی خدمت میں اپنی پارٹی کی رکنیت کا فارم پیش کِیا ۔ بابا ٹلّ نے اُس پر دستخط کئے اور کہا کہ ’’ مَیں اعلان کرتا ہُوں کہ مَیں اپنے لاکھوں ساتھیوں سمیت جناب پرویز مشرف کی پارٹی میں شامل ہوگیا ہُوں‘‘ ۔ پھربابا ٹلّ کے گلے میں لٹکا ہُوا ٹلّ خود بخود بجنے لگا اور میری آنکھ کُھل گئی۔