صرف غلط ٹیم کھلانے سے پاکستان کو شکست ہوئی
بالآخر وہی ہوا جس کا انتظار تھا، آفریدی کا کرکٹ سے دُور کا بھی واسطہ نہیں، پچھلے 20 سالوں سے یہ چمٹا ہوا ہے اور قربان جاؤں کرکٹ بورڈ کے ان سلیکٹروں، ان کے کرتا دھرتاؤں کے جو آنکھ، کان، دماغ بند کرکے اس ایک ان پڑھ کو پرموٹ کرنے میں لگے ہوتے ہیں۔ یہ شخص 20-15 میچوں کے بعد ایک اننگز میں گتکا چلا دیتا ہے۔ ایک آدھ وکٹ حاصل کرکے پھر 20 میچوں کیلئے پکا ہو جاتا ہے اور آج بھی آفریدی نے جو ٹیم اتنے بڑے میچ کیلئے گراؤنڈ میں اُتاری اس میں لیفٹ آرم یا کوئی بھی ریگولر سپنر نہ تھا۔ ٹیم کی غلط سلیکشن سے 20 کروڑ عوام کے سر ندامت سے جھک گئے ہیں۔ ہم لاہور میں بیٹھے وقت نیوز ٹیلیویژن پر گلے خشک کرتے رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کے فاسٹ باؤلروں سے خوفزدہ ہے وہ سپن وکٹ بنائے گا۔ پاکستان کو کم از کم 2 سپنروں عماد وسیم اور محمد نواز سے کھیلنا چاہئے جو فنگر سپنر ہیں اور T20 ٹیم کیلئے عمدہ بیٹسمین بھی ہیں مگر عقل کے اندھوں نے اس سپن وکٹ پر ایک نہیں، دو نہیں اکٹھے 4 فاسٹ باؤلر کھلا دئیے اور پوری قوم نے دیکھا بھارت کے سپنروں نے پاکستانی بیٹسمینوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا اور ہمارے فاسٹ باؤلروں نے پلیٹ میں رکھ کر میچ بھارت کو دے دیا۔ سمیع کی دو لکی وکٹوں کو نکال کر کسی باؤلر نے کچھ نہیں کیا۔ میں تو وہاب ریاض کو نکال کر محمد نواز کو شامل کرنے کا شور ڈالتا رہا۔ تعلیم اور کرکٹ سے ان پڑھ آفریدی نے جو ٹیم میں ایک سپنر عماد وسیم تھا اسے بھی نکال باہر کیا اور ایک اور فاسٹ باؤلر سمیع کو کھلا دیا۔ صرف غلط ٹیم گراؤنڈ میں اُتارنے سے پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت پوری قوم کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ بھارت نے پوری پلاننگ سے یہ میچ کھیلا۔ سپنروں سے اٹیک کروایا اور پاکستانی بیٹسمینوں کو گھما کر رکھ دیا کیونکہ وکٹ ٹرننگ تھی اور ان کے برعکس ہماری پلاننگ صفر تھی۔ نہ فیلڈنگ، نہ باؤلنگ، نہ بیٹنگ، نہ کپتانی اور نتیجہ سامنے ہے۔ اگر حکمرانوں اور کرکٹ بورڈ نے آفریدی کو اب کرکٹ سے آؤٹ نہ کیا تو پھر عوام کو اس گیندے کو نکالنا آتا ہے۔ پورا میچ ایک شخص کی نذر ہو گیا اور قوم کے سر ندامت سے جھک گئے۔ پاکستانی قوم کو موت گوارا ہے مگر بھارت سے شکست گوارا نہیں!