’’صدر جنرل‘‘ مشرف نے سارا فرق مٹا دیا ہے
مجھے اس بات سے غرض نہیں کہ ’’صدر جنرل‘‘ پرویز مشرف چلا گیا۔ اسے جانا ہی تھا۔ وہ خود بخود وطن میں ٹھہرا رہا اور ہم نے خود اسے وطن سے جانے کی ’’اجازت‘‘ نہ دی۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ ہم کسی کو نہ آنے سے روک سکتے ہیں نہ جانے سے روک سکتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نواز شریف بھی گئے تھے پھر آئے۔ نواز شریف کو مشرف روک سکا تھا نہ نواز شریف مشرف کو روک سکا؟
مجھے فکر برادرم احسن اقبال کی ہے جنہوں نے برادرم حامد میر کے ٹی وی پروگرام میں واضح طور پر واشگاف انداز میں اعلان کیا تھا ’’اگر مشرف کو جانے دیا گیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘ جہاں تک میں احسن اقبال کو جانتا ہوں وہ بہت پکے ارادے کے آدمی ہیں۔ اب وہ ضرور سیاست چھوڑ دیں گے اور ہم ایک زبردست سیاستدان سے محروم ہو جائیں گے؟
رہی بات خواجہ آصف کی تو ان کے لئے مجھے پنجابی کا یہ محاورہ یاد آتا ہے۔ ’’خواجے دا گواہ ڈڈو‘‘ ان کے اپنے ہی الفاظ انہیں یاد دلاتا ہوں۔ انہیں خود بھی اپنے یہ الفاظ نہیں بھولے ہوں گے۔ ’’آخر شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے‘‘ پہلے تو خواجہ صاحب یہ بتائیں کہ شرم اور حیا میں کیا فرق ہے۔ وہ خود بتائیں کہ دونوں چیزیں کیا ہیں؟
برادرم خواجہ سعد رفیق نے بھی ’’صدر جنرل‘‘ مشرف کے حوالے سے کوئی بات کی تھی۔ میری پریشانی یہ ہے کہ دونوں خواجگان سیاست میں سے ایک ہی اصلی خواجہ صاحب ہو سکتے ہیں۔ بات خواجہ سعد رفیق نے مردوں والی کی تھی۔ انہوں نے عمران خان کے انداز میں بات کی۔ ’’اوئے جنرل مشرف۔ مرد بنو مرد‘‘ وہ خود بھی سیاست کے مرد ہیں۔ ان کی للکار میں اتنی طاقت ہے کہ واقعی جنرل مشرف نے مرد بن کے دکھا دیا۔ خواجہ صاحب کی نظروں کے سامنے ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی انہیں روک نہ سکا چیک نہ کر سکا۔ وہ تو سرکاری طور پر سمگل کئے ہوئے مال سے بھی زیادہ آسانی اور روانی کے ساتھ باہر چلے گئے انہیں اسلام آباد سے کراچی جانے میں بھی اتنی آسانی نصیب نہ ہوئی تھی۔
امریکہ نے ’’آرمی چیف اور صدر‘‘ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کو کریش کروایا۔ جس کا کریڈٹ جمہوری آمریت والوں نے لیا؟ کہتے ہیں ’’آرمی چیف اور صدر‘‘ جنرل مشرف کو امریکہ والوں نے بچایا۔ کوئی تو بتائے کہ امریکہ والے کون ہیں۔ چلیں ہم ایک اشارہ دے دیتے ہیں کہ وہ فی الحال پاکستان میں ہیں۔ کوئی یہی بتا دے کہ آج کل وزیراعظم نواز شریف ’’صدر جنرل‘‘ ضیاء الحق کا نام کیوں نہیں لیتے؟ جبکہ وہ ان کی دوا اور دعا سے اقتدار میں آئے۔ چلیں یہی کوئی بتا دے کہ ’’صدر جنرل‘‘ مشرف کو پاکستان کس نے بلایا تھا؟
’’صدر‘‘ زرداری جو بات خود نہیں کہنا چاہتے وہ بلاول بھٹو زرداری سے کہلوا دیتے ہیں۔ نواز شریف نے طویل مشاورت کے بعد جنرل مشرف کو نہ روکنے کا فیصلہ کیا۔ ن لیگ کے اکثر ملازم سیاستدانوں نے نواز شریف کی ہاں میں ہاں ملائی۔ وہ ان کی نہیں میں نہیں بھی ملاتے ہیں۔ اس فیصلے کے لئے زوردار دفاع چودھری نثار نے کیا کیونکہ وہی اس فیصلے کے محرک تھے۔ انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ انہیں گارڈ آف آنر کس نے پیش کرایا اور الوداعی پروٹوکول کس نے دیا۔ میں چودھری صاحب کی آسانی کے لئے ان کا نام بتا دیتا ہوں۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں جنرل مشرف کا ارادہ صدارت نہ چھوڑنے کا تھا مگر صدر زرداری نے یہ مشکل بھی آسان کر دی کہ خود بلکہ خود بخود صدر پاکستان بننے کا ارادہ کر لیا۔ اندر خانے سب سیاستدان ان کے حق میں تھے۔ ایک زرداری سب پر بھاری۔
بلاول کو اب یاد آیا ہے یا کسی نے یاد دلا دیا ہے کہ تمہاری اماں اور ’’صدر‘‘ زرداری کی بیوی بینظیر بھٹو کا قاتل مشرف بھی تھا؟ لفظ ’’بھی‘‘ پر بہت زور دیا گیا ہے۔ بلاول کو یہ کسی نے نہیں بتایا کہ بینظیر بھٹو شہید نہ ہوتیں تو آصف زرداری ’’صدر‘‘ زرداری کبھی نہیں بن سکتے تھے اور بلاول زرداری کبھی بلاول بھٹو زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی نہ بنتے۔ اس کا کریڈٹ زرداری صاحب کو جاتا ہے کہ یہ نام اور یہ ’’کام‘‘ زرداری صاحب نے بلاول بختاور اور آصفہ کو دیا ہے۔ ماں اور باپ کی نسبت کو اکٹھا کر دیا ہے۔
چودھری نثار بہت زبردست آدمی ہیں۔ یہ پتہ نہیں چلنے دیا کہ انہوں نے نواز شریف کا دفاع کیا یا جنرل مشرف کا دفاع کیا۔ اس طرح تو واقعی جنرل مشرف کا جانا کوئی مک مکا نہیں ہے؟ کوئی بیک چینل کسی لیول پر نہیں تھا؟ اس کے پیچھے کوئی سایہ نہیں؟ اگر نواز شریف چودھری نثار پر اعتبار کریں تو بڑی اچھی طرح اپنی مدت ملازمت یعنی مدت اقتدار پوری کریں گے کیونکہ چودھری صاحب کی ذات میں سیاسی اور عسکری قیادت دونوں سمائی ہوئی ہیں۔
یہ فیصلہ عدالتی فیصلے کی روشنی بلکہ عدالتی فیصلے کی ’’تاریکی‘‘ میں کیا گیا ہے۔ عدالت نے مشرف کو باہر جانے کی اجازت دی تو پھر سیاست نے بھی اجازت دے دی۔ جنرل مشرف کا مرض میں ہونا نہ ہونا برابر ہو گیا تھا۔ جس نے بھی جنرل صاحب کو اسلام آباد سے کراچی چلے آنے کا مشورہ دیا وہ اصل آدمی ہے؟ یہ فیصلہ جنرل مشرف نے خود کیا تو پھر اسے باہر جانے کا پورا حق حاصل ہے۔ ویسے میرے خیال میں جنرل مشرف کا یہاں ہونا نواز شریف کے لئے مفید تھا۔ وہ تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ سب سے دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مشرف صاحب چار چھ ہفتے کے بعد پاکستان واپس آ جائیں گے؟ جس مقدمے کا مشرف کو سامنا تھا وہ ملک میں ’’جمہوری حکومت‘‘ توڑنے کا نہ تھا۔ ’’ایمرجنسی‘‘ نافذ کرنے کا تھا۔ میری حیرانی کا معاملہ یہ بھی ہے کہ ابھی تک پاکستانی آئین میں آرٹیکل 6موجود ہے؟ جنرل ضیاء نے بھی سیاسی حکومت توڑی تھی اور آئین میں آرٹیکل 6موجود تھی۔ میں تو حیران ہوں کہ اجازت کیا ہوتی ہے۔ کسی ٹی وی پروگرام کے بعد کوئی اینکر پرسن کہتا ہے آپ مجھے اجازت دیجئے۔ کوئی اچھی سی لیڈی اینکر پرسن ہو اور آپ کا دل کہے کہ ابھی اجازت نہیں مگر وہ پھر بھی چلی جاتی ہے اور آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ جنرل مشرف چلا گیا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ اسے ’’اجازت‘‘ مل گئی۔
’’صدر‘‘ زرداری نے پروٹوکول کے ساتھ مشرف کو جانے دیا۔ رحمان ملک وزیر داخلہ تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دور میں بھی ایسے ہی ہوا۔ چودھری نثار وزیر داخلہ ہیں۔ تب جنرل کیانی آرمی چیف تھے۔ اب جنرل راحیل شریف آرمی چیف ہیں ان سب میں کیا فرق ہے؟ ’’جنرل‘‘ مشرف نے سارا فرق مٹا دیا ہے۔