• news
  • image

سست روی قومی جرم

2009ءمیں پاکستان قومی زبان تحریک کے قیام کے وقت ہم سب کے دلوں میں ایک جذبہ موجزن تھا مگر ہم اس قدر جلد اپنی جدوجہد کو کامیاب ہوتا دیکھیں گے یہ ہم سب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ غلامی کا جال اس قدر مضبوط تھا اور لوگوں کے ذہنوں پر انگریزی کی ہیبت و شوکت کے جالے اس قدر تنے ہوئے تھے جنکے پار دیکھنا ان کےلئے ممکن ہی نہ تھا۔ ہم اپنے انداز میں کام کرتے ہوئے اور اپنے پیغام کو پھیلانے میں مصروف رہے۔ 2013ءمیں پروفیسر زاہد رند اور محترمہ فاطمہ قمر کی شمولیت نے تحریک میں ایک نئی روح پھونکی اور اسکے کام کو بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا ۔ یکم جون 2014ءکو ہمدرد مرکز لاہور اور28دسمبر 2014نظریہ پاکستان ٹرسٹ میں ہونے والی نفاذ اردو کانفرنسز نے قومی زبان کے حق میں ایک بہت بڑی لہر کو جنم دیا جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو متاثر کیا ۔ 28مارچ 2015ءکو راولپنڈی میں منعقدہ کل پاکستان نفاذ اردو کانفرنس کی گونج نے اقتدار کے ایوانوں اور بلندو بالا فصیلوں میں محصور افراد اور اداروں کے کانوں کو کھول دیا ۔ 8ستمبر 2015کو عدالت عظمی پاکستان میں نفاذ اردو کا فیصلہ یقینی طور پر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے علاوہ یہاں پر علم سائنس ٹیکنالوجی اور معیشت کے فروغ کا پیغامبر ثابت ہو سکتا تھا مگر بدقسمتی کہ حکمرانوں کی روایتی سست روی اورعدم ادراک نے ان مقاصد کو وقتی طور پر گہنا دیا جو اس فیصلے کے نتیجے میں اس ملک کو ملنا تھا ۔ تاہم جزوی طور پر بعض محکموں اور اداروں میں محبان اردو نے اردو کو جاری و ساری کر دیا ۔ جیسا کہ ڈاکٹر انوار بگوی نے منصورہ ہسپتال ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کسٹم کلیکٹوریٹ اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان اور ایوان صنعت و تجارت لاہور نے اپنے اداروں میں اردو کو رائج کر دیا ہے ۔29فروری 2016ءکو حجاز ہسپتال گلبرگ میں محترمہ مسرت قیوم جو ایک نامور کالم نگار اور سماجی کارکن ہیںان کی دعوت پرقومی زبان تحریک کے وفد نے ان سے ملاقات کی ۔اس ملاقات میں حجاز ہسپتال کی چیئر پرسن بیگم وحید ، محترمہ خالدہ طارق ، محترمہ نسرین حنیف اور محترمہ شہناز سعید بھی شریک ہوئیں ۔اس ملاقات میں ہمارے دلوں کو امیدوں اور ولولوں سے بھر دیا ۔ مسرت قیوم نے حجاز ہسپتال کے معاملات میں اردو کو رائج کرنے کا وعدہ کیا ۔ لاہور میں اردو گھر کے نام سے ایک ادارے کے قیام کا عندیہ دیا ۔آپ اردو گھر کو قومی زبان کے فروغ شاعروں ، ادیبوں اور مصنفین کےلئے ایک ایسے مرکز کی حیثیت دینا چاہتی ہیں جوقومی زبان کے حوالے سے کام کرنے والوں کے لئے اپنے گھر کا سا ماحول فراہم کر سکیں ۔ 12 مارچ کو کاسمو پولیٹن کلب باغ جناح میں معروف ماہر قانون خواجہ کوکب اقبال کے اعزاز میں منعقد ہونے والی نشست ایک یادگار تقریب کی شکل اختیار کر گئی ۔ لاہور میں دن بھر ہونے والی بارش کے باوجود شرکاءکا تقریب میں بروقت پہنچناقوم و ملک اور نظریہ پاکستان سے گہری وابستگی کا مظہر ہے ۔تقریب میں کوکب اقبال ایڈوکیٹ اور اوریا مقبول جان ، لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ مجیب افضل ، میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد لطیف ، گروپ ایڈیٹر روزنامہ دن ایثار رانا ، خالد اعجاز مفتی ، عالیہ زیب ظفر ، ڈاکٹر محی الدین ، بیگم مسرت قیوم ، ڈاکٹر افتخار بخاری، کاشف منظور، مجیب غنی اور ڈاکٹر یعقوب ضیاءکی شرکت نے اس تقریب کو عزت و رونق بخشی ۔پروفیسر سلیم ہاشمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے ۔ راقم نے تقریب کی صدارت کے فرائض انجام دیتے ہوئے افتتاحی کلمات یوں اد اکئے ۔ مہمانوں کی آمدکے شکریہ کے ساتھ نفاذ اردو کی اہمیت اور اس کے نتیجے میں ملنے والے ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ۔ قومی زبان کا نفاذ آئین کا تقاضا ہے ۔ اگر اس میں حکومت کو دشواری کا سامنا ہے تواس حوالے سے تمام سفارشات پر کام مکمل ہو چکا ہے اور حکومت کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے ۔ اور بتایا کہ ماہرین لسانیات ، ماہرین تعلیم ، ممتاز صحافیوں پر مشتمل کمیٹیاں قائم کی جائیں جو نفاز اردو کے عمل کا جائزہ لے سکیں اور اس میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکیں ۔ تمام مقررین نے پاکستان میں نفاز اردو کے حوالے سے مختلف پہلوﺅں کو اجاگر کرتے ہوئے تجاویز دیں ۔ اور یا مقبول جان نے افسر شاہی کے بارے میں اپنے تجربات سے آگاہ کیا ۔آپ نے بتایا کہ سرکاری دفاتر میں تمام تر کام، اجلاس ، گفتگو اور بحث و مباحثہ اردو یا مقامی زبانوں میں ہوتا ہے مگر جب انہیں باتوں کو فیصلے میں ڈھالنے کا وقت آتا ہے تو انگریزی میں تحریر کیا جاتا ہے ۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان فیصلوں اور احکامات سے متاثر ہونے والے لوگوں کی غالب اکثریت اس کو پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے ۔کوکب اقبال نے کہا کہ نفاذ اردو کے فیصلے پر سیاسی جماعتوں کی پراسرار خاموشی ناقابل فہم ہے ۔ یہ رویہ عوام کے جذبات اور ان کے مسائل سے چشم پوشی کی بدترین مثال ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکلے اور حکمرانوں کا گھیراﺅ کرے ۔تقریب کے انتظامات میں عدنان عالم اور سعید حسن نے بھرپور کردارادا کیا ۔ جناب حامد انور نے نفاذ اردو کے حق میں قرار داد اتفاق رائے سے منظور کی ۔ پس تحریر :16مارچ کو راقم الحروف ایک بدترین حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں 17مارچ کو آنکھ کے آپریشن کے اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑا ۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال 17مارچ کو اسی آنکھ کے کارنیا کی ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ڈاکٹر عبدالحئی نے اسی تھیٹر میں کیا تھا۔ احباب نے بیشمار دعاﺅں او رنیک تمناﺅں سے نوازا ۔ تمام دوستوں کا از حد مشکور ہوں ۔ مزید دعاﺅں کا متمنی ہوں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن