’’را‘‘ آفیسر کی گرفتاری اور حکومتی پالیسیا ں
بھارتی بحریہ کا ملازم اور ’’را‘‘ کا آفیسر کل بھوشن یادیو پاکستانی فوجی خفیہ سپریم ادارے کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کا کریڈٹ نہ دینا زیادتی ہو گی۔ ملکی سلامتی کو بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘ کے آفیسروں نے کم از کم پندرہ سال سے چیلنج کررکھا ہے اور وہ افغانستان میں قائم ’’خفیہ مراکز‘‘ سے پاکستانی ایجنٹوں کے ذریعے لاتعداد چھوٹے بڑے عدم استحکام کے آپریشن کروا چکے ہیں اور یہ سلسلہ کئی طرح کے عدم استحکام، دہشت گردی، فرقہ وارانہ فسادات، صوبائی لسانی عصبیتوں کے فروغ، علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی اور سرپرستی، قومی اثاثہ جات پر بڑے حملوں اور نقصانات اور کئی ہمہ جہت تخریب کاریوں سے ملک بھر میں چلایا جارہا ہے۔ ’’را‘‘ فنڈنگ، ایم کیو ایم کے بعض عناصر کی مالی اور اسلحہ جاتی معاونت، ٹارگٹ کلنگ اور کئی طرح کے خون خرابے میں ’’را‘‘ ملوث ہے کہ سب کچھ بھارتی ’’ہاک نما‘‘ انتہاپسند وزیر دفاع منوہر پاریکر اور دیگر قومی سلامتی کے مشیر و زراء کی سرپرستی میں مودی سرکار کی اجازت سے ہورہا ہے۔ مودی جیسا دہشت گرد انسانیت کا قاتل (بطور وزیراعظم) میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان کو شاہی محل رائے ونڈ پہنچ کر میٹھے بول، جپھی، تحائف، ذاتی کاروباری مراسم کے مبینہ سہولت کار جیسے ’’ہتھکنڈوں‘‘ سے ’’رام‘‘ کرنے اور ’’دوستی دوستی‘‘ ہر قیمت پر نبھانے، بھولے بادشاہ (میاں صاحب) کو بھارتی مفادات (افغان بھارت ٹرانزٹ روٹ)، تجارت، کشمیر سردخانے کے ’’خواب‘‘ اور ’’وعدے‘‘ کرکے ’’مات‘‘ دینے میں کامیاب ہورہا ہے!!!
دوسری طرف پاکستان کی پیٹھ میں ’’خنجروں‘‘ کے ’’وار‘‘ (حملے) بھی کرانے کی مکمل سرپرستی کررہا ہے۔ یہ پاکستان کیخلاف بھارتی مکارانہ‘ منافقانہ سیاست کا عملی اظہار ہے لیکن بھولے بادشاہ ’’دوستی تجارت‘‘ کے ایسے ’’بخار‘‘ میں مبتلا ہوئے کہ مذاکرات، کمپوزٹ ڈائیلاگ کی بحالی، تجارت کے وسیع فروغ، پٹھانکوٹ حملوں میں گوجرانوالہ میں ’’ملزمان‘‘ کیخلاف ایف آئی آر کے اندراج، بھارت میں دہشتگردوں کے داخلے کی معلومات کی فراہمی (بچگانہ اقدام)، پٹھانکوٹ حملے کے ملزموں کے پاکستانی اداروں سے روابط اور سرپرستی کے بھارتی الزامات، بھارتی خوشامد سے کرکٹ ٹیموں کے میچ کرانے اور کراچی، بلوچستان، اقتصادی راہداری پر ’’را‘‘ کے ماضی اور حال کے آپریشنوں اور زوردار آواز اقوام عالم میں نہ اٹھانے جیسے نازک معاملات پر غفلت اور لاپروائی کے مرتکب ہورہے ہیں جبکہ ضرورت یہ ہے کہ بھارت کو سفارتی سطح اور عالمی اداروں (یو این او، ای یو (EU)، اسلامی کانفرنس، سارک اور بھارتی ساتھی عرب ریاستوں (4بڑی) کو مکمل ثبوتوں کیساتھ بے نقاب کرکے اقوام متحدہ کی مستقل نشست اور دفاعی اور اقتصادی معاہدوں (عرب ممالک) سے ہرحال میں نااہلی قرار دلانے کی سفارتی مہم شروع کی جائے جو آج تک دو سال سے زائد عرصہ میں نہیں کی گئی۔ ’’را‘‘ نے کل بھوشن یادیو عرف حسین مبارک (جعلی نام) کے ذریعے بلوچستان میں فتنہ و فساد یا علیحدگی، خون خرابہ، تخریب کاری کی کوئی نئی حکمت عملی نہیں بنائی۔ یہ 2001ء کے بعد سے افغانستان کے ذریعے جاری ہے۔ کئی مرتبہ آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس نے بھارتی اہلکاروں، ’’را‘‘ ایجنٹوں، نیٹ ورک کو بلوچستان، کراچی، فاٹا اور دیگر علاقوں سے بارودی مواد، راکٹ لانچروں، بموں، خودکش جیکٹوں، جاسوسی آلات، کرنسی، اینٹی ائرکرافٹ گنوں، جی تھری رائفلوں، مارٹر گولوں اور کئی اقسام کے تخریبی مواد سمیت پکڑا ہے لیکن افغان بارڈر کا وسیع علاقہ 2100 کلومیٹر (کے پی کے، بلوچستان) ’’را‘‘ کا پسندیدہ روٹ رہا ہے۔ محدود وسائل کی وجہ سے یہ ’’بند‘‘ نہیں کیا جاسکا۔ تجارتی، مذہبی، این جی اوز، سفارتی اور ثقافتی بھارتی بڑے چھوٹے وفود میں مختلف عرب، افریقی، ایرانی، سمندری اور دیگر راستوں سے ’’را‘‘ اپنے تربیت یافتہ افراد بھیجتا ہے۔ اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ ’’را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو شرم الشیخ ملاقات میں دیئے جانے سے لیکر میاں محمد نواز شریف اور سرتاج عزیز کے اقوام متحدہ، امریکہ کو دیئے گئے بھارتی تخریب کاری کے ثبوتوں تک سول اور فوجی قیادتوں نے نامعلوم ’’مجبوریوں یا حکمت عملی‘‘ کے تحت ’’را‘‘ کو اور بھارتی قیادت کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے میں ماضی میں سستی کی کم از کم آج بھی ’’نواز راج‘‘ پالیسی 80 فیصد فدویانہ ہے، کبھی کبھی میڈیا یا فوجی دبائو پر سخت جملے بھارت کو کہہ دیئے جاتے ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ بھارت کا مکروہ چہرہ پچھلے 13 سال کے پاکستان میں دہشت گردی اور علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی کی ’’مکمل فلم‘‘ وزارت خارجہ، وزارت دفاع، آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز، اقوام متحدہ کے خفیہ ڈوزیئر بھارتی مداخلت (جس کا نہ پارلیمنٹ نہ کابینہ کو پتہ ہے) کو عالمی سطح پر پیش کیا جائے۔ یہ بھارتی ہائی کمشنر کی طلبی، شدید حکومتی احتجاج، خط وغیرہ رسمی باتیں ہیں۔ قوم کو بھی بتایا جائے کہ ماضی کے ’’را‘‘ کے ملک دشمنی کے ثابت شدہ آپریشن کونسے تھے۔ میڈیا کے 25 لاکھ سے 1 کروڑ والے سینئر اینکرز بھی نااہلی اور قومی مفادات پر سمجھوتے (مجبوریوں) کے مرتکب ہیں جو ’’طاقتوروں‘‘ کے اشاروں کے بغیر ’’را‘‘ کو بھی مکمل بے نقاب کرنے میں ناکام ہیں، یہ قابل مذمت ہے کہ آپ کی لڑائی یا بعض کسی خفیہ ادارے سے ہے لیکن پاکستان پر ’’را‘‘ کے حملے اور ’’را‘‘ آفیسر کی گرفتاری پر سخت پروگرام نہ کرنا جو سب سے بڑی خبر تھی، ایک ’’قومی جرم‘‘ ہے۔ میڈیا اور حکومت کا فرض ہے کہ بھارتی مکروہ منصوبوں کو بطور پالیسی بے نقاب کرے۔