مسخرے دانشور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم چند دوست اداکار مسعود اختر کے ہمراہ الحمراء تھیڑ میں ایک سٹیج ڈرامہ دیکھنے گئے مسعود اختر F.E.Lکے بعد L.L.B کر رہے تھے کہ فن اداکاری میں ایسا جی لگا کہ اول تا آخر اور سرتاپا ایک مکمل اور باکمال اداکار ثابت ہوئے ۔ چاہے وہ بڑی سکرین ہو یا چھوٹی ۔ لاء کالج کا پرانا طالب علم ہونے کے ناطے اور کچھ گوجرانوالہ سے تعلق ہونے کے ناطے وہ روزانہ شام کو کھانے کے بعد لاء کالج ہاسٹل آتے اور میرے کمرے میں دیگر طلبا کے ساتھ رات گئے گپ شپ رہتی ۔ لاہور کے سٹیج پروہ دور مسعود اختر ۔ کمال احمد رضوی ۔ ننھا۔ خالد بٹ ۔ جمیل بسمل ۔ جمیل فخری ۔البیلا۔ فخری احمد اور عطیہ شرف جیسے فنکاروں کا تھا ۔ الحمراء کی عمارت بڑے وسیع رقبہ پرمحیط تھی جس میں صرف ایک ہال ڈرامے کے لیے مخصوص تھا۔ یہ ہال ایسے تھاجیسے ایک چوڑی سے گلی ہو جس کے آخری کونے پر سٹیج بنا تھا ۔ دائیں جانب داخلی وخارجی دروازے اور گلی میں ناظرین کے بیٹھے کا انتظام ہوتا تھا ۔ مسعود اختر کی ہمراہی کی بنا پر ہمیں VIP کرسیوں پر بیٹھایا گیا ۔ کامیڈی میں اس وقت جمیل فخری البیلا اور جمیل بسمل کا طوطی بولتا تھا ۔ ڈرامہ شروع ہوا تو تھوڑی دیر بعد ایک ایسے شخص کی (ENTRY) انٹری ہوئی جسے کوئی نہیں جانتا تھا ۔ حتی کہ باہر بورڈ پر بھی اس کا نام نہیں لکھا ہوا تھا ۔ کیونکہ وہ ایک نیا چہرہ تھا اور یہ اس کا پہلا سٹیج ڈرامہ تھا ۔ اس سے پہلے نہ کبھی ٹی وی اور نہ کبھی ریڈیو پر ہی ان کا ذکر سنا تھا۔ وقفے تک لوگ اسے داد دیتے رہے اور ایک دوسرے سے اس کا نام پوچھتے رہے مگر سبھی لاعلم۔ ڈرامہ ختم ہو گیا ۔ تو ہم میں سے خود ایک دوست نے جا کر اُس سے نام پوچھا تو جھک کر اُس نے کہا کہ "امان اللہ" اتنا غیر فلمی اور غیر فنکارانہ نام سن کر مزہ نہ آیا ۔ غالبا ڈرامے کا نام " سکسر " تھا ۔ اس کے بعد ماسوائے اما ن اللہ سب بڑے بڑے نام جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔ سٹیج کی دنیا سے تیزی سے فارغ ہوتے گئے۔ پھر ایک اور ڈرامہ مال روڈ کے "سلاطین"ریسٹورنٹ میں پیش ہو ا ۔ "بشیرا ان ٹربل " اب کی بار گوجرانوالہ کے ہی ایک اور نئے چہرے ۔ "مستانہ" نے بھی خوب داد وصول کی ۔یہ ڈرامہ مسلسل تقریباً ایک سال تک چلا۔ پھر ایک اور ڈرامے میں ان دونوں نے مل کر اپنے شہر کے ایک اور اداکار " ببوبرال" کو موقع دلوایا ۔ اور یوں یہ تینوں سٹیج ڈراموں کی ضرورت بن گئے۔ غالبا ً اس کہکشاں میں کوئی کمی تھی کہ عابد خاں ، اشرف راہی ، اور پھر سہیل احمد نے تو گویا لاہور کے سٹیج پر قبضہ کر لیا ۔ اس وقت لاہور میں کم وبیش پانچ ڈرامہ ہال بن گئے ۔ جن میں یہی فنکار چھائے رہے۔ کسی نوجوان خاتو ن کا کردار ادا کرنے کے لیے ایک اداکار" شبانہ" تھی۔ غریبی دعوے کی معقول سے کم قبول صورت کوئی رقاصہ یا حرافہ ڈرامے کا حصہ نہیں ہوتی تھی ۔2000ء میں نیو یارک کی سٹرکوں پر پھرتے ہوئے ایک پاکستانی کو ہم لوگ اپنے گھر لے آئے ۔ تب امریکہ جانے والے لوگوں کی ایسے ہی لوگ مدد کیا کرتے تھے۔ کام پر لگواتے ۔ اکٹھے رہتے اور دکھ درد کے شریک ہوتے تھے ۔ ہم نے اسے مشورہ دیا کہ یار " ٹھاکر " تم سے الگ رہ کر ہمارا جی تو نہیں لگے گا۔ لیکن اگر تم پاکستان چلے جائو تو سٹیج ڈراموں میںاس وقت بڑی گنجائش ہے ۔ تم کامیاب ہو جائو گے ٹھاکر بنیادی طور پر درویش آدمی تھا ۔ اللہ کے آسرے پر پاکستان آگیا ۔ کچھ دیر کا م ڈھونڈتا رہا اور جلد ہی دوسرے درجے کا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے آسمان فن کو چھونے لگا۔ اس اثنا ء میں " بشیر اِن ٹربل" نامی ڈرامے میںفیصل آباد کے "جہانگیر مرغ پلائو" والوں کا لڑکا "طارق جاوید " بھی جلوہ گر ہو چکا تھا ۔ اور امان اللہ کی ٹکر کا دوسرا بڑا کا میڈین ثابت ہوا ۔ طارق جاوید کے سٹیج پر آنے کے بعد سٹیج ڈرامہ نے فیصل آباد میں بھی اپنا خوب رنگ جمایا ۔ اور نئے نئے فنکار سٹیج پر آئے ۔ جن میں سردار کمال ۔ نسیم وکی ۔ قیصر پیا۔ طارق ٹیڈی ، ناصر چنیوٹی ، سخاوت ناز ۔ اور ساجن عباس وغیرہ بھی شامل تھے ان کی آمد کے بعد سٹیج گندگی کا ڈھیر (FILTH DEPT.) بن گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان میں سے ہر فنکار غلاظت کا ٹوکرا سر پر رکھ کر سٹیج پر آیا ہے ۔ نہ کسی فنکار کی ماں محفوظ نہ بہن نہ بیوی فیملیز نے سٹیج ڈرامے کا رخ کرنا چھوڑ دیا ۔ بجائے اس کے یہ فنکار سوچتے کہ آخر فیملیز نے اسٹیج ڈرامے سے کیوں منہ موڑ لیا ہے ۔ الٹا انہوں نے خود کو آزاد ماحول میں محسوس کیا۔ پھر ایک دوسرے پر جوتے بھی چلنے لگے اور ان کی نام نہاد جگتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ انہیں کسی عورت نے جناہی نہیں ورنہ عورت کی اس قدر تذلیل نہ کرتے ۔ ایک کمی رہ گئی تھی اسے پورا کرنے کے لیے " بازار حسن" کی رقاصائوں کو موقع بے موقع رقص کرنے کے لیے سٹیج پر موقع دیا گیا ۔ مگر پتہ نہیں یہ کس مٹی کے بنے ہوئے لوگ تھے۔ کیوں کہ انہیں انسان کہنا بجائے خود انسانیت کی توہین ہے ۔ اب اگلا دور فحش اشاروں اور پھر فحش رقص کا آگیا ۔ یہاں تک بھی ہوا کہ ایک رقاصہ نے دوران رقص خو د کو "الف"کر لیا ۔ تاہم یہ جو کچھ ہوتا رہا کسی ایک ڈرامہ ہال میں ہی ہوتا رہا ۔ تماشائیوں کو بھی معلوم ہو تا تھا کہ وہ کہا ں اور کس قماش کے لوگوں سے محظوظ ہونے جارہے ہیں ۔ ستم بلکہ قومی المیہ یہ ہو اکہ اب یہی فنکار ہمارے "قومی دانشور" بن کر عوامی مسائل سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک تبصرے کرتے ہیں ۔ مولانا بن کر نصیحتیں بھی کرتے ہیں ۔ مسئلہ کشمیر کا حل بھی بتاتے ہیںفلسفے پر بحث تو ان کا دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ " کرنٹ افیئر" کا تجزیہ تو چٹکیوں میں کر دیتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے وزیر اعظم میا ں محمد نواز شریف ایک روائیت کے مطابق ان کے شو بڑی باقاعدگی اور پسندیدگی سے دیکھتے ہیں ۔ بھانڈوں اور ڈومیوں کی قدر افزائی سے قوموں کامذاق پست ہو جاتا ہے۔ ٹائن بی نے"قوموں کے عروج وزوال "پرلکھتے ہوئے جب ان کی وجوہات لکھیں تو سلطنت روما کے زوال میں سے ایک سبب یہ بھی تحریر کیا ہے کہ "جہاں تعلیم غیرمتعلقہ لوگوں کے سپرد کر دی گئی وہیں دربار ی مسخرے دانشور بن چکے تھے "