• news
  • image

بندی خانہ… یہ داغ داغ اجالا

اتوا ر کی منحوس خون آشام شام جب جھولے موت کے ہنڈولے بن گئے۔ ہنستے ہنستے مسکراتے، بے فکرے اور خوش باش لاہوریوں کو کیا خبر تھی کہ آنکھ میں آنسو جم جائینگے۔ اتوار کی شام عموماً لاہوری سیر و تفریح کی غرض سے پارکوں کا رخ اختیار کرتے ہیں۔ ہفتے بھر کی تھکن اور فیملی کے ساتھ انجوائے کرنے کیلئے لاہور کے پارک بہترین تفریحی مقامات ہیں۔ اقبال ٹائون کا مشہور ترین گلشن پارک صرف لاہوریوں کیلئے ہی نہیں، چھوٹے شہروں اور قصبات سے آنیوالوں کیلئے انتہائی پر کشش علاقہ ہے۔ اتوار کے دن یہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی۔ گلشن پارک میں عمدہ قسم کے جدید جھولے اور ہرا بھرا پارک سب کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ میرے کافی عزیز و اقارب اقبال ٹائون میں مقیم ہیں۔ ہم اتوار کے علاوہ کسی بھی اور دن یہاں چلے جاتے ہیں۔ ہفتے کو گھر میں کچھ کنسٹرکشن کا کام ختم ہونا تھا مگر نہیں ہوسکا اسلئے میں نے اپنی بیٹی اور بھانجے بھانجیوں سے وعدہ کیا کہ چلو اتوار کی شام ہم گلشن پارک میں پکنک منائیں گے۔ پروگرام کیمطابق ہماری پوری فیملی نے گلشن پارک پانچ بجے جانا تھا۔ ہمارا راستہ گیٹ نمبر ایک ہے جہاں دھماکہ ہوا۔ ہفتے کے روز صبح گیارہ بجے بھانجے کا رزلٹ آیا۔ وہ فرسٹ آیا تھا اور 95 پرنسٹ ایج لی تھی چنانچہ میرے بھانجے نے ضد کی کہ ہفتے کے دن ہی سیلبریشن ہونی چاہئے۔ بہن نے ہفتے کی رات ڈنر پر بلالیا۔ رات ایک بجے واپسی کے بعد میں نے اتوار کا پروگرام منسوخ کردیا کیونکہ گھر میں کافی کام پڑا تھا۔ اسطرح ہم اتوار کی شام پانچ بجے گلشن پارک نہیں گئے۔ گلشن پارک میں عین اس وقت دھماکہ ہوا جب ہم نے وہاں ہونا تھا۔ جس جگہ دھماکہ ہوا۔ ہم اکثر اسی جگہ جاکر بیٹھتے ہیں۔ میں تو نہیں گئی لیکن جونہی دھماکے کی خبر سنی تو گھبرا کر بہنوں کو فون کیا۔ گھر سے پتہ چلا کہ دو بہنیں اور بھانجا طلال مون مارکیٹ گئے ہیں۔ بھانجا اپنا گفٹ لینے گیا ہوا تھا جو وہ اپنے رزلٹ پر اپنی ماما اور خالہ سے لینے گیا تھا۔ جب وہ مون مارکیٹ جاتا ہے تو لازماً گلشن پارک بھی چلا جاتا ہے۔ چھ سال کا طلال ٹھیک ساڑھے چھ بجے گھر سے گیا اور جلدی میں دونوں بہنوں کے موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے رہ گئے۔ ٹی وی پر خبریں چل رہی تھیں کہ دو چھوٹے بچے بم بلاسٹ میں شہید ہو گئے۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے میرے لئے ٹی وی پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا۔ میرے ہاتھ پائوں ٹھنڈے ہونے لگے۔ تقریباً 35 منٹ مجھ پر قیامت کے گزرے، جلدی سے دوسرے بھانجے کو مون مارکیٹ بھیجا۔ آخر کار اسے تینوں شاپنگ کرتے ہوئے مل گئے۔ وہ لوگ پہلے گلشن پارک ہی جانے لگے تھے لیکن اپنا گفٹ لینے کے شوق میں میرا بھانجا پہلے مون مارکیٹ چلا گیا۔ خدا نے ہم سب کو بچالیا۔ ٹی وی پر دہشت ناک مناظر دیکھتے ہوئے میرا دل کپکپاتا رہا اور آنکھیں برستی رہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں نئی زندگی دی لیکن لوگوں کی آہ و بکا دیکھ کر دل بہت بھاری ہو رہا تھا۔ یہ وہ بدنصیب تھے جو خوشی خوشی آئے تھے لیکن اکثر اپنے قدموں پر واپس نہ جاسکے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ کسی کو بھی، کہیں بھی اور کسی بھی طرح آسکتی ہے۔ ضروری نہیں کہ گلشن پارک میں یا مون مارکیٹ میں ہی موت لکھی ہوں۔ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں موت اپنے پنجے گاڑ سکتی ہو۔ روڈ ایکسیڈینٹ یا ٹرین میں موت وار کر سکتی ہوں۔ موت تو محل میں بھی گھس جاتی ہے اور ہیلی کاپٹر میں بھی جاکر گردن دبوچ لیتی ہے۔ موت غریبوں پر وار نہیں کرتی یہ امراء کو بھی مار دیتی ہے۔ موت گولیوں، بموں، دھماکوں سے ہی نہیں آتی… موت کے ہزاروں روپ ہیں۔ موت بستر پر بھی آجاتی ہے اور تخت پر بھی کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ہمارے بچے امریکہ لندن دوبئی اور محلات میں رہتے ہیں تو وہ بچ جائینگے۔ موت کا معاہدہ نہ اقوام متحدہ کا معاہدہ ہے، نہ او آئی سی کا ایگریمنٹ ہے نہ پاک امریکہ معاہدہ ہے نہ پاک بھارت معاہدہ اور نہ ہی کشمیر، سندھ طاس، کالا باغ ڈیم معاہدہ ہے، نہ یہ اے پی سی معاہدہ ہے، نہ وزیراعظم کا تخیلاتی وعدہ، نہ عمران خان کا دلکش وعدہ اور نہ پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا مکان کا وعدہ یہ ن لیگ کا حکومتی معاہدہ نہیں کہ ٹوٹ جائے۔ یہ موت کا وعدہ ہے جس نے کسی سفارش، سازش، منافقت یا چالوں سے نہیں ٹلنا بلکہ وقت مقررہ پر جان لیکر ہی جانا ہے۔ پھر لوگ کیوں نہیں ڈرتے۔ ایک پل کا یقین نہیں اور سامان سو برس کا کر رہے ہیں بلکہ صحیح اعداد و شمار کے مطابق سات نسلوں کا سامان تیار کرلیا ہے حالانکہ چوتھی نسل کو نام بھی یاد نہیں رہے گا کہ نانا یا دادا مرحوم کا پورا نام کیا تھا۔ روزانہ وزیراعظم یہ بیان داغ دیتے ہیں کہ ہم نے دہشتگردی ختم کردی ہے اور محفوظ پاکستان بنالیا ہے۔ دوسرے دن ہی دہشتگردی کی بھرپور کارروائی وزیراعظم کے بلند بانگ دعوئوں کی نفی کردیتی ہے۔ روزانہ وزیراعلیٰ پنجاب ترقی کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور پھر گلشن باغ کا سانحہ پیش آجاتا ہے۔ پاکستان اور پنجاب کی جتنی ترقی ہے۔ وہ ساری وزیروں، مشیروں اور عہدیداروں تک محدود ہے۔ ان لوگوں نے واقعی ترقی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ لوگ بن موت مر رہے ہیں مگر حکمران محفوظ پاکستان اور ترقی کے سفر کا رونا روتے رہتے ہیں۔ دہشتگردی اسطرح نہ ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔ را کے ایجنٹ کلبھوشن دیول نے بتایا ہے کہ وہ کروڑوں روپے دیکر دہشت گردی کرواتے ہیں۔ پورے اقبال ٹائون میں جگہ جگہ ناکے اور لوہے کے سپیڈ بریکر لگادئیے گئے ہیں۔ یہ کام ابھی آٹھ دس دن پہلے ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے۔ جیسے اقبال ٹائون ایک پنجرہ یا بندی خانہ ہو۔ لوہے کہ سپیڈ بریکرز سے لوہے کے کاروبار کو تو واقعی دن دگنی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے کیونکہ لاہور بہت بڑا شہر ہے لیکن چند میٹر کے فاصلوں پر اتنے خطرناک اور سخت فولادی سپیڈ بریکرز لگا کر خادم اعلیٰ نے ہمیں غاروں کے عہد میں پہنچا دیا ہے۔ایسی سڑکیں جن پر 20 گز کے فاصلے پر سپیڈ بریکرز ہوں۔ اس پر گاڑی نہیں، چھکڑا چل سکتا ہے۔ خدا جانے کون بیوقوف یہ مشورے دیتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے پورے لاہور کو قید خانہ بنادیا ہے۔ ہر جگہ خاک اور رکاوٹیں ہیں۔ لاہور نہ ہوا بندی خانہ ہوگیا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن