پنجاب اسمبلی: لاہور دھماکے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور‘ عسکری اداروں کے اقدامات کی حمایت کا عزم
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ سپیشل رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں سانحہ گلشن اقبال پارک لاہور کیخلاف مشترکہ مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی، قرارداد پیش کرنے کیلئے اجلاس کی کارروائی کا ایجنڈا معطل کردیا گیا۔ قرارداد صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے پیش کی۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس گذشتہ روز سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان کی صدارت میں مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ 35 منٹ کی تاخیر سے 3 بجکر 35 منٹ پر شروع ہوا۔ اجلاس میں بدھ کو زیربحث آنیوالا ایجنڈ معطل کرکے سانحہ گلشن اقبال پارک پر قرارداد ایوان میں پیش کی گئی جس پر ممبران اسمبلی کی طرف سے بھر پور بحث میں حصہ لیا گیا۔ منظور کردہ قرارداد میں کہا گیا کہ پنجاب اسمبلی کا یہ ایوان 27 مارچ کو گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے المناک واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے اور اسکے نتیجہ میں ہونے والی شہادتوں پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے، یہ ایوان اس المناک واقعہ کو بڑا سانحہ اور اور اس حملے کوبزدلانہ کارروائی قرار دیتا ہے جس میں تفریح کیلئے آنے والے معصوم بچوں اور خواتین کونشانہ بنایا گیا۔ یہ ایوان افواج پاکستان، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں جو اب دہشت گردوں، سرپرستوں اور سہولت کاروں کے خلاف نبرد آزما ہیں، انہیں اپنی بھر پور تائید اور حمایت کے ساتھ ساتھ اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ اس صوبہ کے 10 کروڑ عوام اپنی لاء انفورسمنٹ ایجنسیز، پولیس، ایلیٹ فورس، کاؤنٹر ٹیررزم فورس، سول، عسکری ادارے رینجرز، افواج پاکستان کے نوجوانوں اور افسروںکے شانہ بشانہ اس جنگ میں کھڑے ہیں اور عسکری اداروں کے اقدامات کی حمایت کا عزم کرتے ہیں۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ یہ نمائندہ ایوان گلشن قبال پارک میں رونما ہونیوالے اس افسوسناک اور ظلم و بربریت کے واقعہ کے بعد دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کیخلاف آپریشن کو مزید منظم اور تیز کرنے کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ قرارداد صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان نے ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طور منظور کرلیا گیا۔ اس موقع پر رانا ثناء اللہ خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں کیخلاف جاری جنگ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے، 20 کروڑ عوام، سکیورٹی اور سول ادارے درندہ صفت لوگوں کے خلاف کھڑے ہوچکے ہیں، ایسے درندوں کے سہولت کار بھی کسی رحم کے مستحق نہیں ہیں، دہشت گردوں کیخلاف جاری آپریشن کو مزید موثر انداز میں تیز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہمارے درمیان کچھ لوگ ہیں جو ان درندوں کی حمایت کرتے اور انکو سپورٹ کرتے ہیں انکا بھی جلد خاتمہ ممکن ہوگا۔ پنجاب پولیس نے اب تک صوبے میں 169،سی ٹی ڈی نے 33اور دیگر ایجنسیوں نے 149 آپریشن کئے ہیں جن میں 12940 مشکوک افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے 410 ایسے افراد ہیں جو انتہائی مشکوک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ گلشن اقبال میں خود کش حملہ آور کسی علاقہ غیر سے نہیں آیا اسکو کسی یہاں کے رہائشی نے پناہ دی ہے۔ اس حوالے ایجنسیاں تحقیقات کر رہی ہیں جلد حقائق عوام کے سامنے ہونگے، اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے کہا پنجاب کی تاریخ میں ایسا افسوسناک سانحہ رونما نہیں ہوا ہے، یہ جنگ انتہائی کشیدہ، کٹھن اور مشکل ہے۔ اس جنگ میں اپوزیشن حکومت کیساتھ کھڑی ہے،گلشن اقبال سانحہ سے قبل سب اچھے کی رپورٹ دی جاتی رہی لیکن یہ سانحہ تمام سابقہ واقعات سے بڑا ہے۔ اس میں بہت بڑا سکیورٹی لیپس ہے اور سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے، نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر اچھی طرح عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے ایسے سانحات رونما ہورہے ہیں، ہمیں اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا ہماری سکیورٹی فورسز نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ کو گرفتار کیا ہے، بغیر کسی دبائو کے اس پر ہوم ورک کیا جائے اور پوری دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دیکھا جائے، ایم پی اے حنا پرویز بٹ نے چند مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا ملک بھر میں انتہا پسند جو مدرسے چلا رہے ہیں انکو بند کیا جائے، تمام مدرسے حکومتی سطح پر رجسٹرڈ کئے جائیں، دینی مدرسوں میں حکومت کو منظور کردہ سلیبس پڑھا یا جائے، تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال نے کہا وزیر اعلیٰ ،آئی جی اور ہوم سیکرٹری کو ایوان میں موجود ہو نا چاہئے تھا، یہ بھیڑ بکریوں کو ایوان نہیں پنجاب کی 20 کروڑ عوام کے نمائندوں کا ایوان ہے، افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جس طرح دیگر صوبوں میں نیشنل ایکشن پلان پر کام ہوا اس طرح پنجاب میں نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے ایسے سانحات رونما ہو رہے ہیں، جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی سید وسیم اختر، پیپلز پارٹی کے قاضی احمد سعید ،شنیلہ روتھ ،فائزہ ملک ،سبطین خان، شہزاد منشی، ڈاکٹر فرزانہ نذیر، میاں رفیق ،سعدیہ سہیل رانا سمیت دیگر ممبران نے سانحہ گلشن اقبال کے حوالے سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ میاں اسلم اقبال، سعدیہ سہیل رانا، فائزہ ملک نے سانحہ گلشن اقبال پارک پر حکومت کی زبردست کھچائی کی اور مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پنجاب میں رینجرز آپریشن کیا جائے، نیشنل ایکشن پلان کو دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی لاگو کیا جائے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے آصف محمود نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں یہ احساس بیدار کرنا ہوگا کہ جو بچے نشانہ بنے وہ ہمارے بچے تھے۔ مصلحتوں پرمبنی نظام کو ختم کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارشد ملک نے کہا کہ آرمی پبلک سکول میں بچوں کو ٹارگٹ کیا گیا تو سکولوں کی حفاظت کا کام شروع ہوگیا۔ اب پارک پر حملہ ہوا ہے تو پارکوں کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ مستقل بنیادوں پر پالیسی بنا کر ہی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکے گا۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران سکیورٹی کے ناقص انتظامات کا پول کھل گیا ، اسمبلی کے داخلی دروازے پر واک تھروگیٹ اجلاس شروع ہونے کے ڈیڑھ گھنٹہ بعدلگایا گیا، سکیورٹی چیکنگ کیلئے صرف میڈیا کو روکا گیا ،عام لوگ بغیر چیکنگ کے ہی گزرتے رہے۔آئی این پی کے مطابق رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ کسی کے پاس پنجاب میں دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپ کے ثبوت ہیں تو ہمیں دیں آپر یشن کریں گے‘ پنجاب میں کوئی نوگوایر یا نہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر مکمل عمل کیا جا رہا ہے۔ سانحہ گلشن پارک پر جے آئی ٹی بن چکی ہے، اسکے سہولت کار وں کسی بھی معاف نہیں کریں گے ، وہ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔