• news

غداری کیس: بغیر اجازت مشرف کو باہر کیوں جانے دیا‘ 9 اپریل کو پیش کیا جائے: خصوصی عدالت

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کے ملزم سابق صدر مشرف کے بیرون ملک جانے پر اظہار برہمی کیا ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ حکومت نے عدالت کی اجازت کے بغیر مشرف کو کیوں باہر جانے دیا؟ عدالت نے مشرف کے ضامن راشد قریشی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا ہے، عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور مشرف کے وکلا سے معاملے پر تحریری جواب طلب کرتے مزید سماعت 19 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ مشرف کو 19 اپریل کو پیش کیا جائے عدالت نے مشرف کے ضمانتی راشد قریشی کو نوٹس جاری کیا کہ ملزم کو پیش کریں ورنہ 25 لاکھ ضمانت ضبط کر لی جائیگی۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشرف عدالت سے اجازت لئے بغیر ملک سے باہر کیسے گئے کیا حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ مشرف کو عدالت نے طلب کر رکھا ہے۔ جس پر (استغاثہ) حکومتی وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ حکومت کو آگاہ کر دیا تھا کہ مشرف کو عدالت نے طلب کررکھا ہے۔ اس کے باوجود انہیں باہر بھیج دیا گیا۔ حکومتی وکیل نے کہا کہ سکائپ اور ویڈیو لنک سے مشرف کا بیان ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ ضامن کی ضمانت ضبط کی جا سکتی ہے۔ عدالت ضمانت منسوخ اور وارنٹ گرفتاری جاری کر سکتی ہے۔ ریڈ وارنٹ جاری کرکے انٹرپول سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ مختلف آپشن عدالت کے پاس موجود ہیں جنہیں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے وقفہ کے بعد سیکرٹری داخلہ کو طلب کرلیا۔ سیکرٹری داخلہ عارف علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ مشرف کی واپسی کی حکومت نے کوئی گارنٹی نہیں لی۔ انسانی بنیادوں پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ جسٹس مظہر عالم نے مشرف کے وکیل فیصل چودھری سے مشرف کے بیرون جانے کے حوالے سے استفسار کیا تو مشرف کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے زبانی طور پر مشرف کو آگاہ کردیا تھا اب وہ نہ آئین تو میں کیا کرسکتا ہوں وہ میرے موکل ہیں، جسٹس مظہر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا عدالت آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ مرکزی ملزم کے بغیر کیس کس طرح آگے بڑھے گا کیا عدالت ضامن کی ضمانت ضبط کر لے؟ حکومت اس کیس کی خود مدعی ہے دوسری جانب حکومت نے مشرف کو باہر بھیج کر خود کیس کو کمزور کیا ہے، مشرف کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ کیس کی سماعت چودہ ماہ کے لئے ملتوی کر دی جائے جب حکومت ہی کیس میں پیش رفت نہیں چاہتی تو عدالت بھی احتیاط سے کام لے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا مطلب ہے کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کے محاورے کی طرح ہے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا اگر وفاقی حکومت چاہے تو سابق فوجی صدر کا نام ای سی ایل میں دوبارہ ڈال سکتی ہے۔ عدالت نے کہاکہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ جب حکومت کو معلوم تھا کہ خصوصی عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 31 مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے تو پھر حکومت نے خصوصی عدالت سے پوچھے بغیر ہی انہیں باہر جانے کی اجازت کیوں دے دی؟ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے کہ بتایا جائے مشرف بنا اجازت کیسے باہر چلے گئے کیا وفاق کو عدالتی حکم سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ سماعت کے آغاز پر مشرف کی طرف سے ایک روز حاضری سے استثنٰی کی درخواست بھی دائر کی گئی۔ عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک بغیر اجازت جانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری داخلہ عارف خان کو طلب کر لیا۔ جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے والوں کو عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا تھا یا نہیں، کیا حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ مشرف کو عدالت نے طلب کر رکھا ہے، حکومتی وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو عدالتی حکم سے آگاہ کر دیا تھا۔ جسٹس مظہر عالم نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ آپ نے سپریم کورٹ کو خصوصی عدالت کے حکم کے حوالہ سے آگاہ کیوں نہیں کیا۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس کیس میں حکومتی ٹیم کا حصہ نہیں تھے۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ عارف خان کے پیش ہونے پر ان کو مشرف کے جانے کے معاملے پر 15 روز میں وضاحت پیش کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف سے واپسی کی کوئی گارنٹی لی گئی، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا آپ غداری کیس میں سنجیدہ ہیں۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان کی واپسی کی کوئی گارنٹی نہیں لی گئی۔ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دئیے کہ آپ کو پرویز مشرف سے واپس آنے اور عدالت میں پیش ہونے کی ضمانت لینا چاہئے تھی۔ حکومتی وکیل اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کی حاضری سے استثنٰی کی درخواست اب ناقابل سماعت ہے۔ پرویز مشرف کے وکلا کو یہ درخواست مشرف کی روانگی سے قبل دینا چاہئے تھی۔ عدالت نے مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری سے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف آئندہ سماعت پر پیش ہوں گے جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ پرویز مشرف کو ایڈوائس نہیں دے سکتے نہ یہ ان کا اختیار ہے۔

ای پیپر-دی نیشن