حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے پر ٹھوس موقف نہیں اپنایا:سپریم کو رٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے سابق صدر مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے، تفصیلی فیصلہ میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 3جولائی 2013ء کے حتمی فیصلہ میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ عدالت نے اپنے سابق عبوری حکم کو کوئی تحفظ نہیں فراہم نہیں کیا ہے، اس لئے وہ عبوری حکم اپنا اثر کھو بیٹھا ہے۔ حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل سے نہ نکالنے کے حوالے سے ٹھوس موقف اختیار نہیں کیا۔ اکثر مواقع پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا وفا قی حکومت مشرف کا نام ایک سی ایل میں شامل رکھنا چاہتی ہے، لیکن اٹارنی جنرل کے پاس وفاقی حکومت کی جانب سے اس بارے کوئی خاص ہدایات نہیں تھیں، ان کا صرف ایک یہی موقف تھا کہ وزارت دا خلہ نے مشرف کا نام عدالت کے احکامات کے بعد ای سی ایل میں شامل کیا تھا۔ جبکہ وزارت داخلہ کا خط عدالت کے احکامات سے تین روز پہلے ہی جاری کر دیا گیا تھا اور اس میں بھی کسی بھی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے احکامات کا ذکر نہیں کیا گیا تھا جیسا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا ہے، کسی بھی ملزم کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ مشرف کے خلاف مختلف عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں اس کے باوجود وفاقی حکومت اور خصوصی عدالت نے واضح موقف اختیار نہیں کیا، سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ قانون کے مطابق تھا کسی ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی کسی کا نام ای سی ایل سے نکالا جا سکتا ہے، فیصلہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے تحریر کیا ہے، عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 15کے تحت آزادی نقل وحرکت شہریوں کا بنیادی حق ہے، جس کی ضمانت آئین نے دے رکھی ہے، ملک کے کسی شہری پر بھی ماسوائے کسی قانونی وجہ کے محض پسند و ناپسند کی بنیاد پر ایسی کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی ہے ہر شہری کو نقل و حمل کی مکمل اجازت ہے۔ آئین کا آرٹیکل 4ہر شہری کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کرنے کی ضمانت دیتا ہے جبکہ کسی شہری کا نام بھی ای سی ایل پر ڈالنے کے حوالہ سے میکنزم (طریقہ کار) موجود ہے، جس کو بروئے کار لاکر اس کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کا فیصلہ درست ہے اور اس نے پرویز مشرف کو معقول وجوہات کی بنا پر داد رسی دی ہے۔ انہی بنیادوں پر عدالت نے 16مارچ 2016ء کو وفاقی حکومت کی اپیل خارج کی تھی، تاہم عدالت نے اپنے مختصر فیصلہ میں لکھا تھا کہ یہ فیصلہ ملزم پرویز مشرف کے خلاف جاری سنگین غداری کیس میں وفاقی حکومت یا عدالت کی جانب سے ملزم کے خلاف کسی بھی قسم کا حکم جاری کرنے، اس کو حراست میں لینے یا اس کی نقل و حرکت پر پابندی لگانے کے راستہ میں حائل نہیں ہوگا۔