پھول ہی پھول اور نظامی گھرانے کی خوشیاں
بہت بڑے آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر خالد وحید کے گھر کے چاروں طرف پھول ہی پھول تھے۔ رنگوں کا بازار گرم تھا اور خوشیو کی بہار چھائی ہوئی تھی، وزیر آباد کے لوگ آباد تھے مگر کوئی وزیر اور وزیر شذیر یہاں نہیں تھا۔ صرف ریٹائرڈ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ موجود تھے وہ پچھلے سال بھی آگئے تھے جب وہ باقاعدہ چیف جسٹس تھے۔ وزیر آباد کے یوسف جنجوعہ جو ڈاکٹر خالد وحید سے محبت رکھتے ہیں اور اسی حوالے سے میرے ساتھ بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آیا ہے جو ایک لفظ کی ” تبدیلی“ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔
پھول ہیں آنگن یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرھن
ڈاکٹر خالد وحید پھول دار شخصیت کے ساتھ ہر مہمان کو خوش آمدید کہتے ہیں،
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
مرشد و محبوب مجید نظامی کے یوم ولادت کے حوالے سے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے زیر اہتمام برادرم شاہد رشید نے ایک خوشبو دار تقریب سجائی ہوئی تھی۔ ایک دائرے میں نظامی صاحب کے ساتھ محبت کرنے والے بیٹھے تھے۔ صدارت صدر محمد رفیق تارڑ کررہے تھے وہ طبیعت کی ناسازی کے باوجود آئے تھے وہ مجید نظامی کے ساتھ جان و دل سے تعلق رکھتے تھے اُن کے بعد نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین بھی ہیں۔
محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر رضا بخاری آئے تھے۔ کیک کٹنے کی کارروائی کے بعد کیک کھائے بغیر چلے گئے۔
صدر تارڑ، ڈاکٹر رفیق احمد، جسٹس آفتاب فرخ، فاروق الطاف، پیر اعجاز ہاشمی، قیوم نظامی، کرنل اکرام اللہ، ڈاکٹر پروین خان، آصف بھلی، علامہ اصغر علی کوثر وڑائچ، میاں حبیب اللہ، ڈاکٹر اشرف نظامی، مظفر گڑھ سے عبدالمجید خان، اجمل نیازی، شاہد رشید نے خطاب کیا۔
فوزیہ چیمہ ، حسیب پاشا ، ناہید عمران، سیف اللہ چودھری، عباس علی، عثمان احمد اور نائلہ عمر نمایاں طور پر موجود تھیں۔ نائلہ عمر کو جسٹس آفتاب فرخ نے ڈاکٹر پروین خان کی ADC کا خطاب دیا۔
میں نے نظامی صاحب کے لئے اپنا شعر پڑھا
وہ نہیں ہے پھر بھی ہم جب یاد کرتے ہیں اُسے
ایسے لگتا ہے ہماے درمیاں موجود ہے
قیوم نظامی نے میر تقی میر کا شعر سنایا
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
مجید نظامی اپنے زمانے میں پاکستان کے بہت بڑے انسان تھے ایک دوست نے کہا کہ ” علامہ اقبال اور قائداعظم کے بعد مجید نظامی کا نام ذہن میں آتا ہے“ وہ حکمرانوں کو اپنی تنقید کی زد میں رکھتے تھے، سلطان جابر ہو یا صابر ہو۔ انہوں نے کلمہ حق بلند کیا وہ بہت بڑے مجاہد صحافت تھے۔ حیرت ہے کہ حکمرانوں کی جرا¿ت نہ ہوئی کہ انہیں ایک دن بھی جیل میں بھیجتے۔
صدر ایوب کی آمریت کو مجید نظامی نے للکارا تو اور آوازیں بھی گونجنے لگیں صدر ایوب کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کو مادر ملت کا خطاب مجید نظامی نے دیا جو پوری قوم نے اپنالیا۔ کئی لوگوں کو مادر ملت کا نام یاد نہیں ہے۔ وہ پاکستان کی صدر بنی ہوتیں تو آج تاریخ مختلف ہوتی مگر اس سے بہت پہلے میرے خیال میں مادر ملت کو اپنے بھائی قائداعظم کے بعد پاکستان کا گورنر جنرل بنایا ہوتا تو بھی تاریخ مختلف ہوتی مگر ہمارے نصیب میں تاریخ سے شرمندہ ہونا لکھا ہے۔ صدر ایوب نے مادر ملت کو دھاندلی سے ہرایا اور اس کے بعد دھاندلی انتخابی بدنصیبی کے لئے لازم و ملزوم ہوگئی۔
پوری پاکستانی صحافتی دنیا کو نظامی صاحب کا دن منانا چاہیے۔
میں عظیم نظامی گھرانے کی دوسری خوشی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، اس موقع پر مجید نظامی بھی ہوتے تو یہ خوشی ہزار گنا بڑھ جاتی۔
رمیزہ نظامی کے شادی کارڈ میں مجید نظامی اور محترمہ ریحانہ نظامی کی طرف سے دعوتی کارڈ میرے لئے انوکھی خوشی کا باعث تھا۔ مجید نظامی اور محترمہ ریحانہ مجید نظامی کی طرف سے بلاوا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ کہیں موجود ہیں۔ میں نوائے وقت کی ایڈیٹر اے پی ایف این کی نائب صدر رمیزہ نظامی کی شادی پر کالم نہیں لکھ رہا۔ میں صرف یہ بتارہا ہوں کہ ایک بہت مہذب ماحول میں بارات کا استقبال وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کیا۔ شاید یہ پہلی شادی تھی جہاں میں اپنی بیگم رفعت نیازی کے ساتھ پورے وقت پر پہنچا مگر مجھ سے پہلے وہاں شہباز شریف موجود تھے۔ انہوں نے بڑی محبت سے کہا کہ میں شادی میں شرکت کرنے والوں کے استقبال کے لئے آیا ہوں۔ میں آپ کا بھی استقبال کرتا ہوں۔ رمیزہ بی بی میرے لئے بیٹیوں کی طرح ہے۔ انہوں نے بارات کا بھی استقبال کیا۔
شادی کی تقریب گرمانی ہا¶س مین بلیوارڈ گلبرگ میں تھی۔ اتنی مہذب خوبصورتی سے سجا ہوا۔ ماحول میں نے کم کم کہیں دیکھا ہوگا۔ برادرم سعید آسی ” اُن کی اہلیہ محترمہ بھی شریک ہوئے۔
بھابھی کے ساتھ بیٹی بھی تھی۔ اثر چوہان کے ساتھ ہم ایک طرف ہو کے بیٹھے رہے۔ آہستہ آہستہ ہجوم بڑھ گیا۔ ہر شعبہ جات سے خواتین و حضرات تھے، یہ ایک بہت اچھا اجتماع بن گیا۔ صحافتی حلقوں سے لوگ کچھ زیادہ تھے۔ وہ لوگ جو نظامی گھرانے سے محبت رکھتے ہیں میرے مکرم دوست علامہ راغب نعیمی نے نکاح پڑھایا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب حق مہر کی بات آئی تو رمیزہ بی بی نے کہا کہ شرعی حق مہر ہونا چاہیے۔ نوائے وقت کے سب اہم لوگ موجود تھے۔ جیسے وہ بھی گھر کے آدمی ہوں، محترم بھائی سلیم بخاری ، سعید اسی، فضل حسین اعوان، اسد اللہ غالب، امتیاز احمد تارڑ، اثر چوہان، نصرت جاوید، اسلام آباد نوائے وقت سے جاوید صدیق ، نواز رضا کے علاوہ جسٹس آفتاب فرخ، صضیہ اسحاق بھی موجود تھے۔ جسٹس صاحب نظامی گھرانے کے بااعتماد آدمی ہیں وہ مجید نظامی کے قریب تھے شادی میں بہت سرگرم تھے۔ اے پی این ایس کے لوگ مجیب الرحمن شامی ، عمر شامی اور سب نمایاں صحافی موجود تھے۔
چوہدری پرویز الٰہی کا نام اخبار میں تھا مگر وہ ہمیں نظر نہیں آئے، چوہدری جاوید الٰہی اور مواحد حسین کی گپ شپ ہمارے ساتھ چلتی رہی۔ ہمایوں اخترخاں، الطاف قریشی ، میاں محمد منشا بھی تھے۔
نظامی گھرانے کے سب خدمت گار شادی میں موجود تھے۔ مجید صاحب کے پسندیدہ خدمت گزار منیر صاحب بھی تھے اور آخر تک رہے۔ وہ رمیزہ بی بی کے لئے بھی بہت عزت رکھتے ہیں۔ سارے ڈرائیور بھی، ستار اور غنی اور خورشید، مجھے اچھا لگا کہ ملازم بھی گھر کے آدمی ہوتے ہیں۔ ان کا خیال رکھا گیا۔
رمیزہ بی بی نوائے وقت کی لیڈر ہیں اور بیٹی بھی ہیں۔ وہ سٹیج پر بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ اُن کے دولہا اویس زکریا عزیز بھی بہت شاندار انداز میں سٹیج پر موجود تھے۔ کچھ عورتیں کھسر پھسر کررہی تھیں یہ کہ جوڑی بہت کمال کی ہے۔ اللہ اس رفاقت کو سلامت رکھے۔ رخصتی کے وقت میں اور میری بیوی اس گاڑی کے پیچھے کھڑے رہے جب تک وہ گاڑی ہمیں نظر آتی رہی۔ آخر میں ایک شعر عزیزم اویس زکریا عزیز اور رمیزہ مجید نظامی کی نذر کرتا ہوں۔
کہا ہے عارف کامل نے مجھ سے وقت وداع
محبتوں سے ہیں بڑھ کر رفاقتوں کے حقوق