میاں صاحب! آپ کی وجہ سے کہیں پھر جمہوریت کی بساط نہ لپیٹ دی جائے: بلاول
لاڑکانہ (نامہ نگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی 37ویں برسی 4 اپریل ملک بھر میں منائی گئی۔ مرکزی تقریب گڑھی خدا بخش میں ہوئی، پارٹی ورکرز نے براہ راست اپنے اپنے شہروں میں خطاب سننے کا خصوصی اہتمام کیا تھا۔ لاہور میں انسانی حقوق ونگ کے زیراہتمام ایسے تمام پارٹی ورکرز جو مرکزی تقریب میں شمولیت نہ کر سکے کیلئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا خطاب سننے کا خصوصی اہتمام کیا۔ سندھ حکومت اور آزاد کشمیر میں آج عام تعطیل تھی۔ ملک بھر میں پیپلزپارٹی کے زیراہتمام تقریبات اور سیمینارز کا اہتمام کیا گیا۔ گڑھی خدا بخش بھٹو میں برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید محترمہ کا قاتل اور دو بار آئین توڑنے والا ملک سے باہر کیسے چلا گیا؟ ملک میں پرویز مشرف اور ذوالفقار علی بھٹو کیلئے الگ الگ نظام ہیں‘ بھٹو کا قتل جمہوریت کا قتل تھا جس کی سزا ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن میں موجودہ حالات کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں۔ وزیر داخلہ کا منہ ایک طرف اور وزیر دفاع کا منہ ایک طرف ہے۔ میاں صاحب آپ کی وجہ سے کہیں پھر جمہوریت کی بساط نہ لپیٹ دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ میرے نانا کو عدالتی حکم پر قتل کیا گیا‘ بھٹو کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا‘ ان کا قصور یہ تھا کہ پاکستان کو 1973ء کا آئین دیا‘ ان کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ لیبر پالیسی بنائی۔ بھٹو کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے غریب کی زبان کو طاقت دی‘ بھٹو کا قصور تھا کہ انہوں نے 90ہزار جنگجوئوں کو قید سے نکالا‘ جاگیرداری وڈیرہ شاہی ختم کرکے نیا ریفارم دیا‘ بے زمین ہاریوں کو مفت زمین دے کر مضبوط کیا‘ لیبر پالیسی بناکر مزدوروں کو سرمایہ داروں کے شکنجے سے آزاد کرایا۔ میں سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے سوال کرتا ہوں کہ دوبار وزیراعظم رہنے والی خاتون وزیراعظم کو کیوں مارا جاتا ہے؟ آخر ہمارا گناہ کیا ہے؟ ہمارا قصور کیا ہے؟ ہمارا جرم کیا ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ آخر کیوں؟ گڑھی خدا بخش کے شہیدوں کے لہو سے ملک کا چہرہ روشن ہے‘ آج بھی ایک ہی سوال ہے کہ یہ لاکھوں لوگ ان شہیدوں کے مزار پر کیوں کھنچے چلے آتے ہیں؟ ہم بار بار کہتے ہیں بے گناہ بے گناہ‘ ہمارا قائد بے گناہ‘ میرے 2جوان ماموئوں کو قتل کیا گیا‘ ان سے جینے کا حق چھینا گیا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے بتایا کہ طاقت کا اصل سرچشمہ عوام ہیں‘ بھٹو کا قصور تھا کہ پاکستان کا ساڑھے 5ہزار میل رقبہ دشمن سے واپس لیا۔ میاں صاحب عوام پوچھتے ہیں کہ شہید بینظیر کے قتل کا ملزم ملک سے کیسے بھاگ گیا‘ ایک بار نہیں دو بار آئین توڑا‘ ملک کے غدار کو ملک سے باہر کیسے جانے دیا‘ میاں صاحب‘ آپ تو کہتے تھے کشکول توڑ دیں گے‘ بھیک نہیں مانگیں گے اس کا کیا کیا ہوا‘ آج عدالت بھی سوال کرنے پر مجبور ہے اس غدار کی واپسی کی ضمانت کون دے گا‘ آپ شوق سے کہتے تھے ’’اے طائرلا ہوتی اس رزق سے موت اچھی‘‘ اس کا کیا ہو؟ ۔ پیپلزپارٹی ہر اس بجٹ کو مسترد کرتی ہے جو غریب کا نوالہ چھین کر امیر کا خزانہ بھرتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کی کوئی واضح پالیسی نہیں‘ میاں صاحب! آپ کی گڈگورننس کا پول کھل چکا ہے‘ وزیر داخلہ کا منہ ایک طرف اور وزیر دفاع کا منہ دوسری طرف ہے‘ اے پی ایس کا سانحہ ہوا تو ان کو نیشنل ایکشن پلان یاد آ گیا‘ ملک کے نوجوان ڈگری ہاتھوں میں لے کر اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں‘ آپ ہر روز پاکستان کی عوام کے نام پر 5 ارب روپے کا قرض لے رہے ہیں‘ ہر آنے والا بچہ لاکھوں روپے کا مقروض ہے‘ آپ نے کشکول کیسا توڑا؟ غریب روٹی مانگتا ہے آپ اس کو جنگلا بس دکھا دیتے ہیں‘ غریب بہتر صحت مانگتا ہے آپ اورنج لائن دکھا دیتے ہیں۔ اللہ ظالموں کا پردہ چاک کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہداء کا وارث ہوں سر کٹتا ہے تو کٹ جائے۔ نیشنل ایکشن پلان کو مسلم لیگ ن کا پلان بنایا تو سانحہ لاہور رونما ہوا۔ آخر ہمارا جرم اور گناہ کیا ہے۔ میں عدالتوں‘ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے پوچھتا ہوں‘ شہید بھٹو نے عوام کو بتایا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘ عوام کو شعور دیا کہ متحد ہو کر اپنے حقوق چھین لو‘ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ 40 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو واپس لائے۔ پہلا متفقہ آئین دیا‘ اس نے جاگیرداری‘ وڈیرہ شاہی ختم کرکے زرعی اصلاحات کیں‘ بے زمین ہاریوں کو مفت زمین دے کر مضبوط کیا۔ ملک کو دفاع کیلئے ایٹمی طاقت بنایا، بیروزگاری کے خاتمے کیلئے سٹیل ملز، کامرہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس بنائے۔ انہوں نے غریب کو سکھایا کہ بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، بول کہ زباں اب تیری ہے۔ تختہ دار پر بھٹو کی صرف نعش نہیں تھی وہ پاکستان کے عوام تھے۔ لیاقت باغ میں شہید بی بی کا خون نہیں تھا وہ کروڑوں غریبوں کی امیدوں کا خون تھا۔ بھٹو کا قتل غریبوں، آئین اور جمہوریت کا قتل تھا جس کی سزا ہم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ آج عدالت بھی سوال کر رہی ہے کہ مشرف کی واپسی کی ضمانت کون دے گا۔ میاں صاحب آپ تو کہتے تھے کشکول توڑ دیں گے، بھیک نہیں مانگیں گے اس کا کیا ہوا؟ پاکستان کی 60 سالہ تاریخ میں اتنا قرض نہیں لیا گیا جتنا آپ نے صرف 3 سال میں لے لیا۔ ملک کی 60 سالہ تاریخ میں ساڑھے 4 کھرب کا قرض ہے جو آپ نے 3 سال میں لیا۔ آپ ہر روز یومیہ 5 ارب روپے کا قرض اُٹھا رہے ہیں۔ اگر دنیا میں تیل کی قیمت نہ گرتی تو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا۔ پورے ملک کا سرمایہ اٹھا کر آپ نے ایک شہر میں لگا دیا ہے، مشرف کیلئے الگ نظام اور بھٹو کیلئے الگ نظام کیوں ہے؟ ملک کے نوجوان ڈگریاں اٹھا کر اپنا مستقبل تلاش کر رہے ہیں، آپ کو غیرملکی دوروں سے فرصت نہیں۔ میاں صاحب! پارلیمنٹ بھی آ جایا کریں۔ بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ! یہ اس وقت سوچتے ہیں جب کوئی بڑا واقعہ ہوتا ہے۔ یہ انتظار کرتے ہیں کسی بڑے سانحہ کا۔ میں نے دہشت گردی کیخلاف اقدامات کیلئے کہا لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا تب اے پی ایس کا سانحہ پیش آ گیا تو انہیں نیشنل ایکشن پلان یاد آ گیا اور آپریشن شروع کیا۔ میاں صاحب نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے؟ میاں صاحب آپ کے خطاب نے قوم کو مایوس کیا۔ آپ قوم سے خطاب کر رہے ہیں وہ بھی چھوٹا سا۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ان کی نیت نہیں، حکیم اللہ کی موت پر آنسو بہاتے ہیںلاہور جلتا ہے تو وزیر داخلہ مسنگ پرسن بن جاتے ہیں۔ بھٹو کی 37ویں برسی پیر کے روز ملک بھر کی طرح راولپنڈی میں بھی عقیدت و احترام سے منائی گئی اس حوالے سابقہ پھانسی گھاٹ (موجودہ جناح پارک )میں تقریب کا اہتمام کیا گیا تاہم برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی راولپنڈی کھل کر مختلف دھڑوں میں تقسیم نظر آئی اور تمام دھڑوں نے اپنی الگ شناخت کے ساتھ پھانسی گھاٹ پر حاضری دی تقریب کی کوریج اور میڈیا کے داخلے پر پابندی کے باعث پیپلز یوتھ آرگنائزیشن (پی وائی او) اور پارٹی کے بعض کارکنوں نے جناح پارک کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز(پی پی پی ڈبلیو) نے مطالبہ کیا کہ پھانسی سے قبل کال کوٹھڑی میں ذوالفقار علی بھٹو کے زیر استعمال صوفہ، میزکرسیا ں اورلیمپ سمیت کوٹھڑی میں موجود تمام اشیا ء پیپلز پارٹی ورکرز کی تحویل میں دیا جائے جسے عجائب گھر میں رکھ کر آمریت کے خلاف سینہ سپر بھٹو مرحوم کے کردار سے آنے والی نسلوں کوآگاہ کیا جا سکے۔ جناح پارک کو بھٹو کے نام سے منسوب کر کے ان کی یادگار تعمیر کی جائے۔ اعتزاز احسن نے کہاکہ شریف فیملی کے اربوں کے اثاثوں کی تحقیقات کرائی جائے۔ پنجاب میں حکمرانی نام کی کوئی چیز نہیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے آمریت نے پاکستان کو کمزور کردیا ہے آج بھی ملک میں غریب کا کوئی سننے والے نہیں ہے۔ جلسہ سے پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو، سنیٹراعتزازاحسن اور سابق وزیراعظم راجہ پرویزاشرف سمیت دیھرنے بھی خطاب کیا۔ خورشیدشاہ نے کہاکہ شہید بھٹو نے جب پارٹی بنائی تو اس وقت کسانوں کا استحصال ہورا تھا جنہوں نے آکر بتایا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، ایک شخص نے پاکستان کی سیاسی طاقت کو بڑی قوت میں تبدیل کردیا اور پوری عالم اسلام کو متحرک کیا جس کے باعث ان کے خلاف سازش کرکے انہیں پھانسی دی گئی۔
لاڑکانہ (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک بھر میں پارٹی کی مکمل تنظیم نو کرنے کی درخواست کی پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان نے شرکت کی ۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا ۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کی تنظیم کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ تمام صوبوں میں پارٹی کی تنظیم نو کی جائے گی ۔ اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ سی ای سی میں شہید ذوالفقار بھٹو کے مشن پر چلنے کا اعادہ کیا گیا ۔ بلاول بھٹو پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کے لئے پاکستان کے عوام سے رائے مانگیں گے ۔ اگر پانامہ لیکس میں انکشافات پیپلز پارٹی کے خلاف ہوتا کہرام مچ جاتا ۔ اجلاس میں بلاول بھٹو پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا ۔ پانامہ لیکس سنجیدہ معاملہ ہے ۔ ٹیکس چھپانا اور چوری کرنا دونوں ہی جرم ہیں ۔ کائرہ نے کہا کہ کرپشن فری پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی خواب ہے ۔ بلاول نے کہا کہ پارٹی کی تنظیم نو جلد کروں گا۔ تمام صوبوں میں پارٹی کی تنظیم نو ہوگی۔ بھٹو کا مشن جاری رکھیں گے۔ اجلاس کی بریفنگ دیتے ہوئے قمر الزمان کائرہ نے کہا کہ سی ای سی میں شہید ذوالفقار بھٹو کے مشن پر چلنے کا اعادہ کیا گیا۔ بلاول بھٹو پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی کیلئے پاکستان کے عوام سے رائے مانگیں گے۔ بلاول بھٹو نے صوبائی سطح پر پارٹی کی جلد تنظیم نو کا فیصلہ کیا ہے۔ پانامہ پیپرز سنجیدہ مسئلہ ہے۔ پاکستانی قیادت سے متعلق انکشافات حیرت انگیز ہیں، حسین نواز کا انٹرویو اب سمجھ میں آرہا ہے، معاملہ پیپلز پارٹی سے متعلق ہوتا، کہرام مچ جاتا۔ دیکھنا ہے ملک کے مقتدر حلقے کیا کرتے ہیں حکومت پیپلز پارٹی دور کے اختیارات صوبوں سے واپس لینے کی کوشش میں ہے۔