آئین نہ ماننے والے مجرم سزائوں کے خلاف قانون کا سہارا کیسے لے سکتے ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کی اپیلوںکی سماعت کے دوران5 افراد کو قتل کرنے کے مجرم ظفر اقبال کی پھانسی کی سزا برقرار رکھتے ہوئے اس کی اپیل خارج کر دی ہے جبکہ دیگر اپیلوں کے حوالہ سے اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو نوٹسز جاری کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت 6 اپریل تک ملتوی کردی ہے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ہمارا وطن بدترین دہشتگردی کا شکار ہے، آئے روز افواج پاکستان کے جوان اپنی جانوں کے نذرانے دے رہے ہیں، کیا ان دہشتگردوں کے ساتھ عام طریقے کا برتاؤ کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے دیکھنا ہے کہ سب سے زیادہ ملک سے ساتھ کون وفادار ہے؟ اپیل کنندگان کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا کہ ہم دہشتگردی کے خلاف ہیں، لیکن ہر شخص کو انصاف ملنا چاہئے، ہمارے پاس امید کی صورت میں سپریم کورٹ آخری فورم ہے، اگر عدالت بھی سکیورٹی کے نام پر بنیادی حقوق سے انحراف کرے تو یہ درست نہیں۔ بنیادی حقوق ہر شخص کا حق ہے، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا بھر میں دہشتگردوں کو ایسے ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں، ہجوم کے سامنے کھڑا کر کے سزائیں دی جاتی ہیں، جو آئین اور قانون کو نہیں مانتا کیا اسے آئین کو بطور دفاع پیش کرنے کا حق حاصل ہے؟ عدالت کو قانونی نکات کو مدنظررکھتے ہوئے ہی فیصلے کرنا ہوں گے، شفاف ٹرائل اور قانونی نکات کو بھی دیکھنا ہوگا، آئین اور قانون کے مطابق ہر شخص کے حقوق ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جولوگ فوج پر حملوں میں ملوث ہیں، کیا ان کیخلاف عام ملزموں جیساسلوک کیا جائے؟ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عام مقدمات میں شفاف ٹرائل اور قانونی تقاضے پورے کرنے کے لیے قانون شہادت میں طریقہ کار درج ہے، وفاقی حکومت وہ قانون بتائے کہ فوجی عدالتوں سے کس قانون کے تحت سزائیں دی جا رہی ہیں؟ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے افراد کے مقدمات اور فیصلوں کا وفاقی حکومت سے مفصل ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے پانچ قیدیوں کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ جو مجرم آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے پھر وہ ان سزاؤں کے خلاف قانون کا سہارا کیسے لے سکتے ہیں؟ دہشت گردی کو عام جرم کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ بعض ملکوں میں تو ایسے افراد کو عدالتوں سے سزائیں ملنے کے بعد بلا تاخیر تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے درخواستوں کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ملزموں کو فیئر ٹرائیل کی اجازت نہ دینے سے دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوجی عدالتیں ملکی قوانین کے تابع ہیں، تمام ملکی ادارے آئین کے تحت کام کر رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ نے کہاکہ فوجی عدالتیں اب جو کام کر رہی ہیں انہیں ایک آئینی شق کے تحت تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ آئین بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ہر شخص آئین کی پاسداری کا پابند ہے۔سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے قیدیوں کی درخواست سے متعلق کیس میں اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے، آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتے، آئین اور قانون کے مطابق ہر شخص کے حقوق ہیں، شفاف ٹرائل اور قانونی تقاضوں کو دیکھنا ہو گا، ریکارڈ کا جائزہ لے کر اٹارنی جنرل کا موقف سنیں گے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ملک دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہو رہا ہے، ملک حالت جنگ میں ہے، آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھ سکتے ،آئے روز سکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہو رہے ہیں جو آئین کو نہیں مانتا اسے بنیادی حقوق کیسے دیئے جا سکتے ہیں، دہشت گرد کہتے ہیں کہ ہم اپنا قانون نافذ کریں گے، عالمی سطح پر بھی جنگی جرائم کے مقدمات میں سزائیں ہوتی ہیں، سزا یا فیصلے کے فوری بعد مجرموں کو فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر دیا جاتا ہے، بنیادی انسانی حقوق صرف آئین کو ماننے والوں کیلئے ہوتے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پھر تو ہمارے مولوی آئین کو نہیں مانتے، جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے، قانون شکنوں کا ٹرائل کرنے والے خود قانون پر عملدرآمد کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کا جائزہ لے کر اٹارنی جنرل کا موقف سنیں گے۔ ہمیں قانونی نکات کر مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔