قومی اسمبلی کا اجلاس‘ دیکھنے ہم بھی گئے تھے پر تماشا نہ ہوا
اسلام آباد (جاوید صدیق) قومی اسمبلی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں پانامہ پیپرز میں ہونے والے انکشافات سے متعلق ایک ہنگامہ برپا ہونے کا جو اندیشہ تھا وہ غلط نکلا۔ اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے پانامہ پیپرز میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کے بارے میں آف شور کمپنیوں میں رقوم رکھنے کا جو انکشاف ہوا اس پر بحث ہونی چاہئے۔ سپیکر ایاز صادق بحث کرانے سے گریز کر رہے تھے لیکن سپیکر کی مشکل وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ کہہ کر آسان کر دی کہ حکومت کو اپوزیشن کی تحریک التواء پر بحث کرانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ خواجہ آصف نے جنہیں حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے حملہ کو پسپا کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا سپیکر سے کہا کہ وہ رولز کو چھوڑیں اپنی صوابدید استعمال کریں اور تحریک پر بحث کرائیں جس پر سپیکر نے اپوزیشن کی تحریک التواء پر بحث شروع کرائی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے جب پانامہ پیپرز پر بحث کا آغاز کیا تو انہوں نے بڑے پھسپھسے انداز میں تمہید باندھی ایسا محسوس ہو رہا تھا ان کی حکومت کیساتھ کوئی انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ جب حکومت کی طرف سے خواجہ آصف نے اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینا شروع کیا تو انہوں نے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا نام لئے بغیر یہ کہنا شروع کیا کہ ان دونوں جماعتوں کے لیڈروں کے نام بھی پانامہ پیپرز میں موجود ہیں۔ خواجہ آصف کی کوشش تھی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ صرف وزیراعظم یا ان کے خاندان والے قصوروار نہیں۔ عمران خان نے جو خطاب کیا وہ غیرجذباتی تھا انہوں نے کہا کہ حکومت میرے خلاف بھی اور شوکت خانم ہسپتال نے اگر کوئی بے قاعدگی کی ہے تو اس کی بھی انکوائری کرے۔