تنقید سے لگتا ہے حزب اختلاف والے ’’گنگا جمنا‘‘ نہائے ہیں: وزیر اطلاعات ،اپوزیشن کا شدید احتجاج
اسلام آباد (خبر نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کے اظہار خیال کے دوران اپوزیشن نے احتجاج، ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کیا۔ مسلم لیگ (ن) لیگ کے ارکان نے ’’گو عمران گو‘‘ اور تحریک انصاف کے ارکان نے گو نواز گو کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جب وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران شوکت خانم کے چندے کی رقم آف شور کمپنی میں لگانے کے ذکر پر کینسر کے مریضوں کے پیچھے چھپتے ہیں اور پارٹی چندے میں خورد برد کے مقدمے میں عدالت کے سٹے آرڈر کے پیچھے چھپتے ہیں تو پی ٹی آئی کے ارکان نو نو کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ سپیکر ایاز صادق نے اجلاس ملتوی کرنے کی دھمکی دے کر ارکان کو خاموش کرایا۔ پرویز رشید نے کہا کہ نواز شریف کے صاحبزادوں نے آف شور کمپنی بنا کر کوئی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام نہیں کیا، آف شور کمپنیوں کو حاصل مراعات پاکستان کے صنعتی زونز کو بھی حاصل ہیں، نواز شریف نے اپنے بچوں پر الزام لگنے پر انہیں احتساب کیلئے پیش کر دیا۔ جس کو انکوائری کمشن پر اعتبار نہیں تو اس کے لئے سپریم کورٹ کا راستہ کھلا ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ اپوزیشن کی تنقید سے لگتا ہے کہ ان کے لیڈر گنگا اور جمنا سے نہائے ہیں۔ پانامہ پیپرز میں مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف کسی غیر قانونی اور غیر اخلاقی کام بارے ایک لفظ بھی درج نہیں۔ آف شور کمپنی رجسٹر کرانا عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی نہیں۔ نواز شریف کے صاحبزادوں نے اپنے نام سے کمپنی رجسٹرڈ کرائی، نام چھپایا نہیں، جس نے غیر قانونی کام کیا ہو، وہ اپنے نام سے آف شور کمپنی نہیں بناتا۔ پہلے الزام لگایا جاتا تھا کہ شریف خاندان وال حکومت میں رہتے ہوئے بڑے میگا پراجیکٹس کے کمشن سے اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں، یہ الزام نصیر اللہ بابر نے شہباز شریف پر لگایا کہ شہباز شریف نے کوریا سے موٹروے کا کمشن حاصل کیا اور پھر اسی ایوان میں نصیر اللہ بابر کو شہباز شریف سے معافی مانگنا پڑی۔ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کو تنقید کا موقع جانا، آج تک کسی نے خود کو احتساب کیلئے پیش نہیں کیا، نواز شریف نے اپنے بچوں کو بھی احتساب کے لئے پیش کر دیا۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ 3 ملین ڈالر کی رقم جو عمران خان نے آف شور کمپنی میں لگائی تھی وہ آج تک شوکت خانم کی بیلنس شیٹ پر موجود نہیں۔ کمشن ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں بنایا جا رہا ہے، دھاندلی کے الزامات پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنا تھا، تحریک انصاف نے اس کے فیصلے کو بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ پرویز رشید تحریک انصاف کی ہوٹنگ پر جذباتی ہو گئے۔ حکومتی ارکان نے وزیراعظم کے خاندان کے خلاف مہم پر افسوس کا اظہار کیا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پانامہ پیپرز لیکس کا معاملہ اہم نہیں اگر اہم نہ ہوتا تو آئس لینڈ کا وزیراعظم استعفیٰ نہ دیتا۔ یہ اپوزیشن کا نہیں پاکستان کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ اس پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق ہوگیا ہے کہ اس معاملے پر تحقیقات کی جائیں مگر تحقیقات کا طریقہ کار وضع کرنا باقی ہے۔ معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایسا کمشن بنانا ہو گا جس میں اپوزیشن اور حکومت سمیت عوام بھی مطمئن ہوں۔ سب کو مل کر مسئلہ حل کرنا ہو گا۔ نواز شریف اور ان کی فیملی کو ہی صرف تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں ہے دیگر دو سو لوگوں کا بھی نام لینا چاہیے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے کہا کہ ٹی وی پر ہونے والی بحث اب ایوان میں آچکی۔ شریف خاندان نے 1935 سے کاروبار کی بنیاد رکھی۔ اس خاندان سے سوال کرنا کہ پیسہ کہاں سے آیا عجیب ہے۔ مشرف دور میں کونسا ظلم و ستم اس خاندان پر نہیں ڈھایا گیا مگر اس خاندان پر بدعنوانی کا ایک بھی چارج نہیں لگایا جا سکا۔ دھرنوں سے کچھ نہیں ملے گا دھرنوں کا وہی انجام ہوگا جو پہلے ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شازیہ مری نے کہا کہ پاکستان کے وزیراعظم کے خاندان پر منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری کے الزامات لگائے گئے ہیں اور جب ہم بیرون ملک جائیں گے تو ہم کیا جواب دینگے۔ حکومت نے اپنے سرمایہ کو بیرون ملک منتقل کیا ہے سڑکوں پر نکلنے کی بات ہم اکیلے نہیں کررہے ہیں ہمارے پیچھے عوام ہے عوام کے پیسوں سے ذاتی پریس کانفرنسز کی جاتی ہیں۔ بی بی سی کے مطابق شازیہ مری نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس کی خفیہ دستاویزات میں آف شور کمپنیز میں وزیراعظم کے بچوں کا نام آنے کے بعد اب نواز شریف کے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ وہ اس عہدے پر فائز رہیں۔ انہوں نے کہا کہ اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ میاں نواز شریف اسی وقت وزیراعظم کے عہدے سے الگ ہو کر خود کو احتساب کے لیے پیش کر دیتے۔ پانامہ پیپرز لیکس معاملہ پر بحث میں سید آصف حسنین، جہانگیر ترین، نوید قمر، عارف علوی اور دیگر نے حصہ لیا۔ سید آصف حسنین نے کہا کہ پاکستانی عوام قیام پاکستان کے بعد حکمران کلاس کی کرپشن پر شرمسار ہیں، نواز شریف خاندان نے اپنے اثاثے چھپائے، ان پر دفعہ 62اور 63کا اطلاق ہونا چاہئے۔ شیر اکبر خان نے کہا کہ نیب کے مطابق روزانہ ملک میں 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، ملک کو کرپشن فری بنائے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔ کرپشن کے خاتمے پر اتفاق رائے کیلئے اے پی سی بلائی جائے۔ سید نوید قمر نے کہا کہ اپوزیشن کی جماعتوں پر کائونٹر اٹیک کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اس مسئلے پر ایک یا دو دن بحث کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ رمضان اور چوہدری شوگر ملوں کی بیلنس شیٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ رضا حیات ہراج نے کہا کہ ابھی تک صرف ایک دستاویز آئی ہے، اس کی تحقیقات ہوں گی، آف شور کمپنی کا شیئر ہولڈر ہونا کوئی گناہ نہیں۔ اخلاقیات پر آئیں تو یہ ممبران یہاں بیٹھنے کے قابل ہی نہیں۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملک سے غیر قانونی طور پر باہر جانے والے پیسے کی تحقیقات پہلے بھی نہیں ہوئیں، وزیر خزانہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں مگر اڑھائی سال ہو گئے ہیں۔ شیخ آفتاب نے کہا کہ موجودہ مہم کا مقصد پاکستان میں ترقی کی رفتار کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر بات پر دھرنے کی دھمکی دینا افسوسناک ہے، اپوزیشن اغیار کی آلہ کار نہ بنے۔ صاحبزادہ یعقوب نے کہا کہ پانامہ پیپرز لیک ایک حساس معاملہ ہے کیونکہ اس میں وزیراعظم کے بچوں کا نام آیا ہے، معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ اس معاملے پر بحث اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شہریار آفریدی نے کہا کہ سپیکر ایاز صادق کا گزشتہ روز عمران خان کے خطاب کے موقع پر مثبت رویہ قابل ستائش تھا، مسلم لیگ (ن) کے تمام ارکان نواز شریف کو تحقیقات کا کہنے کی بجائے ان کی کرپشن کا دفاع کر رہے ہیں، میرا لیڈر عمران خان ہے اگر وہ کوئی غلط کام کرے تو میں اس کے خلاف بھی میدان میں نکلوں گا۔ قومی اسمبلی میں کمپنیات (قانونی مشیران کی تقرری) ایکٹ 1974ء میں مزید ترمیم کرنے کا بل پیش کر دیا گیا۔ قانونی افسران آرڈیننس 1970ء میں مزید ترمیم کا بل بھی پیش کر دیا گیا۔ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی 2013-14ء اور 2014-15ء کی دو سالانہ رپورٹیں پیش کی گئیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے قومی اسمبلی میں کورم کی نشاندہی پر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس آج منگل کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا۔