• news
  • image

حکمران خاندان اپنے دیس کی مٹی سے وابستہ ہو تو کسی انکوائری کی بھی ضرورت نہیں پڑےگی

عمران خان کا اسلام آباد اور رائے ونڈ جانے اور وفاقی وزیر داخلہ کا انکا راستہ روکنے کا اعلان

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے پانامہ دستاویزات کی تحقیقات ایف آئی اے سے کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خاں جس افسر کا کہیں گے اسے انکوائری افسر مقرر کر دیا جائے گا، گزشتہ روز کلرسیداں میں لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس کا معاملہ الزام تراشی کی نذر نہیں ہونا چاہئے اور حقیقت قوم کے سامنے آنی چاہئے کہ کس نے کیا کھایا۔ ان کے بقول پانامہ لیکس پر اپوزیشن نے بیانات کا سلسلہ شروع کرکے قوم کو مفلوج بنا دیا ہے جبکہ تنقید کرنے والی اپوزیشن کے لیڈران کے نام بھی پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ پانامہ لیکس کو دنگا فساد اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے پانامہ لیکس کے معاملات کی انکوائری کے لئے کمشن کی تشکیل کے اعلان کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ کے دو سابق چیف جسٹس صاحبان سے کمشن کی سربراہی کے لئے رابطہ کیا مگر اپوزیشن کی طرف سے الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہونے اور طوفان بدتمیزی برپا کرنے پر ان ججز نے معذرت کر لی، تاہم انکوائری کمشن کے سربراہ کا جلد تقرر کر لیا جائے گا۔ انہوں نے پی ٹی وی پر قوم سے خطاب سے متعلق عمران خاں کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے باور کرایا کہ پوری دنیا میں قومی چینل پر خطاب کا حق صرف صدر اور وزیراعظم کو حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو ڈی چوک یا اسلام آباد میں کسی بھی اور جگہ پر جلسے کرنے اور دھرنے دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی ہم نے اسلام آباد سیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور جلسوں کے لئے ایک جگہ مخصوص کریں گے، روز روز اسلام آباد کا رخ کرنا مذاق بن چکا ہے۔
پانامہ لیکس پر عمران خاں اور اپوزیشن کے دوسرے رہنماﺅں نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے متعلقہ ارکان پر تنقید اور تحقیقات کے تقاضوں کا سلسلہ شروع کیا تو یہ اپوزیشن کی سیاست کا حصہ ہے اور اگر حکمران خاندان کی طرف سے قومی وسائل کے ناجائز استعمال اور اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے وہاں کاروبار شروع کرنے کی کوئی بات منظر عام پر آئے تو اپوزیشن کو ایسے معاملات کی انکوائری کا منتخب ہاﺅس کے اندر اور باہر تقاضہ کرنے کا حق حاصل ہے جس پر غیر ضروری طور پر جوابی جارحانہ رویہ اختیار کرکے اور وزیراعظم نے سراسر اپنے خاندانی معاملہ پر قوم سے خطاب کرکے خود ہی آ بیل مجھے مار والا راستہ اختیار کیا چنانچہ اپوزیشن بالخصوص عمران خاں کو حکومت پر پوائنٹ سکورنگ کی سیاست کو آگے بڑھانے کا نادر موقع مل گیا جبکہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے بیرون ملک کاروبار کی خاطر اپنے ترک وطن کی داستان سنائی اور وزیراعظم نواز شریف نے حسین نواز کے کاروبار سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے دو ادوار حکومت میں اپنے والد مرحوم کے کاروبار کے سیاسی انتقام کی بنیاد پر تباہ کئے جانے کا مرثیہ پڑھا تو اس سے قوم کے دلوں میں بھی بجا طور پر یہ سوچ پیدا ہوئی کہ شریف فیملی کے سربراہ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی تھی جس کے سہارے وہ ہر بار اپنے ڈوبتے کاروبار کو دوبارہ بامِ عروج پر پہنچاتے رہے ہیں جبکہ اب اس حکمران خاندان کو ملک کے اندر کاروبار کرکے قومی معیشت کی ترقی اور عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اور ان کے صاحبزادے محض کاروبار کی خاطر ملک چھوڑ جانے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔ اس تناظر میں حکمران خاندان کی دفاعی پوزیشن سے لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھنا بھی فطری امر تھا جبکہ وزیراعظم نے انکوائری کے لئے کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمشن قائم کرنے کا اعلان کیا تو اس سے بھی اپوزیشن ہی نہیں، عوام کو بھی تحفظات لاحق ہوئے کہ ایسے کمشن سے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے اس لئے اس معاملہ میں بھی اپوزیشن احتجاج اور حکومت مخالف تحریک کا اعلان کرنے پر بادی النظر میں حق بجانب تھی۔ اس صورتحال میں یقیناً کوئی بھی حاضر سروس یا سابق جج کمشن کی سربراہی قبول کرکے اپنی عزت و آبرو کی جانب انگلیاں اٹھوانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ عمران خاں کی دھرنا تحریک کے دوران سابق چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، الیکشن کمشن کے ارکان اور الیکشن ٹربیونلوں کے سربراہوں کی جو بھد اڑائی گئی یقیناً وہ صورتحال بھی ان فاضل سابق چیف جسٹس صاحبان کے پیش نظر ہو گی جنہیں حکومت کی جانب سے پانامہ لیکس انکوائری کمشن کی سربراہی کی پیشکش کی گئی۔ اب وزیر داخلہ عمران خاں کو ایف آئی اے سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کر رہے ہیں تو اس پر بھی اپوزیشن ایف آئی اے کے حکومتی ادارہ ہونے کی بنیاد پر معترض ہو سکتی ہے۔ اس لئے حکمران خاندان کی جانب سے اب جتنی دفاعی پوزیشن اختیار کی جائے گی اتنا ہی اپوزیشن کی پوائنٹ سکورنگ کی سیاست میں شدت پیدا ہو گی۔ عمران خاں پہلے ہی 24اپریل کو ایف نائن پارک اسلام آباد میں جلسے اور اپنے کارکنوں کو رائے ونڈ جانے کی تیاری کی کال دے چکے ہیں۔ جبکہ قومی اور پنجاب اسمبلی میں بھی اس ایشو پر روزانہ کی بنیاد پر اپوزیشن کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور پیپلز پارٹی کے لیڈران بھی باوجود اس کے کہ پانامہ لیکس میں ان کی پارٹی کے متعدد لیڈران کے نام بھی شامل ہیں جس پر انہیں بھی قوم کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئے، حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ برقرار رہتا ہے اور حکمران خاندان کے ارکان اپنی آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک سرمایہ منتقل کرنے کے معاملہ میں اپوزیشن اور قوم کو مطمئن کرنے کا کوئی دانشمندانہ راستہ اختیار نہیں کرتے تو اس کے یقیناً جمہوریت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
بے شک وزیراعظم کے خاندان کی آف شور کمپنیاں متعلقہ ممالک کے قوانین کے تقاضے پورے کرکے قائم کی گئی ہوں گی اور اسی طرح انہوں نے قانونی تقاضے پورے کرکے ہی اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا ہو گا جس پر ان کی قانونی گرفت کا بادی النظر میں کوئی امکان نہیں نظر آتا۔ تاہم لوگوں کو پانامہ لیکس کے ذریعہ وزیراعظم کے خاندان کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں معلومات حاصل ہوئی ہیں تو وہ بجا طور پر اس تجسس اور تفکر کا شکار ہیں کہ جس ملک کے حکمران خاندان کو عزت، شہرت اور دولت دے کر تین بار اقتدار کی مسند پر بٹھایا، انہیں اس ملک میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنا بھی گوارا نہیں اور وہ فخریہ انداز میں اعلان کر رہے ہیں کہ ہمارا کاروباری خاندان ہے جسے بیرون ملک کاروبار کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔
اس کے برعکس آف شور کمپنیوں کا معاملہ بھی ایسا نہیں کہ ان سے صرفِ نظر کر لیا جائے کیونکہ متعدد آف شور کمپنیوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور بعض دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے کے انکشافات بھی پانامہ لیکس کے ذریعے ہو چکے ہیں اور اس بنیاد پر پوری دنیا میں طوفان برپا ہے اور جن جن ممالک کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کی آف شور کمپنیوں کی نشاندہی ہوئی ہے وہاں کے عوام ان کے احتساب کے لئے پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں سے بھی زیادہ جارحانہ انداز اختیار کر چکے ہیں۔ اگر اس صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے ارکان اخلاقی بنیادوں پر رضاکارانہ طور پر بیرون ملک موجود اپنا سارا سرمایہ ملک واپس لے آئیں اور یہاں صنعتیں لگانا شروع کر دیں تو اس سے کم از کم لوگوں میں ان کے اپنے ملک کی سرزمین کے ساتھ جڑے ہونے کا تاثر تو پیدا ہو گا اور اسی طرح پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے اوورسیز پاکستانیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کی جانے والی وزیراعظم کی اپیل بھی موثر ثابت ہو سکتی ہے ورنہ غیر ملکی سرمایہ کاروں اور اوورسیز پاکستانیوں کو یہ سوچ ہی پاکستان میں اپنا سرمایہ منتقل کرنے اور یہاں سرمایہ کاری کرنے سے روکتی رہے گی کہ حکمران طبقات خود ملک سے باہر کاروبار کر رہے ہیں اور اپنا سرمایہ بیرون ملک بنکوں میں منتقل کر رہے ہیں تو انہیں بھی سرمایہ کاری کے لئے پاکستان کا انتخاب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ وزیراعظم آج اپنے خاندان کا سارا سرمایہ اور غیر ملکی بنک اکاﺅنٹس سے اپنی رقوم پاکستان واپس لانے کا اعلان کر دیں تو ان کے خلاف اپوزیشن کی سیاست بھی دم توڑ جائے گی اور انہیں اپنے خاندان کے معاملات کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل یا انکوائری کمشن تشکیل دینے یا ایف آئی اے کو یہ ذمہ داری سونپنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہو گی بصورت دیگر چودھری نثار علی خاں اسلام آباد یا رائے ونڈ یا ملک کے کسی بھی دوسرے حصے میں عمران خاں اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کا راستہ نہیں روک سکیں گے اور حکومتی جبری اقدامات سے سیاسی تلخیوں اور کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگر میاں نواز شریف نے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے انتخابی اقتداری سیاست کے دروازے آئندہ کے لئے بھی کھلوانے ہیں تو انہیں ملک اور عوام کے ساتھ اپنے اخلاص اور وطن کی مٹی سے محبت کا عملی ثبوت پیش کرنا ہو گا ورنہ عوام اقتدار کی منزل کے لئے کوشاں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے کا لیبل لگانے اور انہیں سابق حکمران پیپلز پارٹی کی طرح راندہ¿ درگاہ بنانے میں حق بجانب ہوں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن