سخاوت کے خوگر
حضرت انسؓ فرماتے ہیںکہ ایک شخص نے حضور اکرم رحمت کائناتﷺ کی خدمت میں عرض کیا، یا رسول اللہ محبوب خداﷺ میری دیوار کے پاس کجھور کا ایک درخت ہے جو فلاں صاحب کی ملکیت ہے، مجھے اپنی دیوار کی درستگی کےلئے اسکی ضرورت ہے، آپ انھیں حکم فرما دیں کہ وہ یہ درخت مجھے دے دیں تاکہ میں اپنی دیوار کو درست کر سکوں، آپ نے اس شخص کو فرمایا کہ تم کجھور کا یہ درخت اسے دے دو تمہیں اسکے عوض جنت میں کجھور کا ایک درخت ملے گا لیکن اس شخص نے معذرت کر لی۔ حضرت ابوالد حداحؓ کو خبر ہوئی تو وہ اس کجھور والے کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تم میرے اس باغ کے بدلے میں اپنا کجھور کا درخت میرے ہاتھ بیچ دو، وہ راضی ہو گیا۔ حضرت ابوالدحداح، حضور اکرم رحمت کائناتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ محبوب خداﷺ میں نے اپنا باغ دے کر کجھور کا وہ درخت خرید لیا ہے اور اب آپ کی نذر کر رہا ہوں آپ اس آدمی کو وہ درخت دے دیں، آپ نے خوش ہو کر کئی بار فرمایا: ابوالدحداح کو جنت میں کجھور کے پھلدار اور بہت سے بڑے بڑے درخت ملیں گے۔ وہ اپنی اہلیہ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے امِ داحداح! تم اس باغ سے باہر آجاﺅ میں نے اسے جنتی کجھور کے عوض فروخت کر دیا ہے۔ انکی اہلیہ بھی انکی ہم مزاج تھیں، انھوں نے کہا: بڑے نفع کا سودا کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ روایت فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: ”کو ن شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دے، قرض حسنہ کے طور پر، پھر اللہ تعالیٰ (اس کے ثواب کو بڑھا کر) بہت سے حصے کردے“ (البقرة :۲۴۵)۔ حضرت ابوالدحداحؓ نے یہ آیت سنی تو عرض کیا، یارسول اللہ محبوب کائناتﷺ! کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہم سے قرض لینا چاہتا ہے۔ حضور اکرم رحمت عالمﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں! حضرت ابوالدحداحؓ نے عرض کیا، آپ ذرا اپنا دستِ مبارک مجھے عنایت فرمائیں، آپ نے اپنا دستِ مبارک انکی جانب بڑھا دیا انھوں نے حضور اکرم محبوب عالمﷺ کے ہاتھ کو تھام لیا اور عرض کیا میرا ایک باغ ہے، جس میں کجھور کے چھ سو درخت ہیں، میں نے اپنا وہ باغ اپنے رب کو بطور قرض دے دیا ہے۔ آپ جہاں اور جیسے مناسب سمجھیں، اس میں تصرف فرمائیے پھر وہاں سے چل کر اپنے باغ میں پہنچے انکی بیوی اور انکے بچے اس باغ میں تھے، انھوں نے آواز دی، اے ام دحداح، انکی بیوی نے کہا: لبیک، انھوں نے کہا: باغ سے باہر آجاﺅ، کیونکہ میں نے یہ باغ اللہ تبارک و تعالیٰ کو قرض دے دیا ہے۔ (طبرانی ،احمد)