اتوار ‘02 رجب المرجب 1437ھ‘ 10اپریل 2016 ء
پانامہ لیکس عالمی سازش ہے۔ نوازشریف کے ساتھ ہیں، کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا: فضل الرحمن
طرفہ تماشہ ہے مولانا کی طبیعت بھی، ابھی کل تک حقوق نسواں بل پر خود مولانا حکومت کے کس بل نکالنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ منصورہ میں تو باقاعدہ شامل باجہ جماعتوں نے بھی ان کے ساتھ مل کر 1977ءکی جیسی تحریک چلانے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ یاران نکتہ داں نے اسی وقت کہہ دیا تھا۔ ”اوہ دن ڈبا جدوں گھوڑی چڑھیا کُبّا“ سب جانتے ہیں اندون خانہ مولانا کے حکومت کے ساتھ ”آف شور“ قسم کے تعلقات ہیں۔ یہاں بھی سرمایہ اپنی بہار دکھا رہا ہے۔ یہ نظر بازی اور بیان بازی بس ہل من مزید کے لئے ہوتی ہے۔ اس بیان تازہ کے بعد تو بے چاری جماعت اسلامی سمیت باقی جماعتوں کی امیدوں پر بھی اوس پڑ گئی ہوگی جو لنگوٹ کس کر ایک بار پھر حکومت کیخلاف میدان میں اترنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ مگر مولانا کے اس بیان کے بعد ”وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا“۔ اب دیکھنا ہے مولانا کے اس امدادی بیان پر حکمران خوشی سے ان کا منہ موتیوں سے بھرتے ہیں یا دامن، حالانکہ دونوںہی بھرے ہوئے ہیں اور ان میں جگہ نہیں۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے مولانا کو سونے چاندی میں تولا جائے۔ اگرچہ یہ گھاٹے کا سودا ہے کیونکہ مولانا کافی وزن دار ہیں۔ مگر ان کا بیان بھی تو ان کی طرح ہی وزن دار ہے اس لئے ہمارے مغل اعظم حکمران ملکی خزانے کی پتلی حالت بھول کر بھی انہیں سونے چاندی میں تول سکتے ہیں۔ ویسے جب تک مولانا دیوار چین بن کر وزیراعظم کے آگے سینہ سپر ہیں حقیقت میں کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ یہ پانامہ لیکس کیا چیز ہیں۔ وہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی شرعی توڑ دریافت کر لیں گے۔ اور مخالفین منہ دیکھتے رہ جائیں گے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
پنجاب اسمبلی میں کھٹمل اور چوہوں کی بھرمار
ہماری اسمبلیوں میں شور شرابا‘ دھینگا مشتی پہلے ہی کیا کم ہوتی ہے کہ اب ان موذی کھٹملوں اور چوہوں نے بھی ادھر کا رخ کرلیا ہے۔ ریکارڈ اٹھا کر دیکھےں تو معلوم ہو گا کہ ہماری اسمبلیوں میں ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد صرف اور صرف شرکت کے لئے آتی ہے۔ بے شک وہ وزیراعلیٰ سندھ کی طرح آنکھیں بند کر کے سوتے نہیں۔ خراٹے لے کر ساتھ والے ممبر کی نیند یا آرام میں خلل نہیں ڈالتے مگر حرام ہے جو کبھی انہوں نے منہ سے ایک لفظ بولا ہو یا اسمبلی کی کسی کارروائی میں حصہ لیاہو۔ بس گم سم آنا سلام دعا کر کے بت بن کر بیٹھنا ہی ان کے نزدیک رکن اسمبلی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ بولنا‘ بحث میں حصہ لینا۔ اپنے حلقے کے مسائل اٹھانا‘ قانون سازی وغیرہ پہلا حصہ لینا ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ بس خانہ پری یا رائے شماری میں ہاتھ کھڑا کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں یا پھر کورم پورا کرنا۔ اپنی ذمہ داری گردانتے ہیں۔ اب ان بے چاروں کو اسمبلی کی کرسی پر بھی کھٹمل تنگ کریں، سکون نہ لینے دیں تو ان کا اسمبلی میں آکر بیٹھنے کا کیا فائدہ۔ چوہوں سے اصل مسئلہ مرد ارکان اسمبلی کو نہیں خواتین کو ہو سکتا ہے۔ جو چوہے کو دیکھتے ہیں اچھل کود اور چیخ و پکار کرنے لگتی ہیں جس سے اسمبلی کا ماحول خراب ہو سکتا ہے اور ارکان اسمبلی کے آرام میں خلل پڑ سکتا ہے۔حکومت اس بارے میں تحقیقات کرائے کہ یہ کس کی سازش ہے۔ یا پھر چوہا اور کھٹمل مارنے پر خیبر پی کے کی طرح انعام مقرر کرے۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
فاٹا میں پہلی مرتبہ 3 خواتین پولیس میں بھرتی
یہ ہوتی ہے حقیقی تبدیلی ان بہادر مسیحی خواتین کے بعد امید ہے اب صوبے کی دیگر خواتین بھی پولیس کی طرف رجوع کریں گی۔ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے کیونکہ گھروں میں مرد پولیس داخل ہو تو بے پردگی ہوتی ہے۔ اب خواتین پولیس کی وجہ سے ہماری معاشرتی اقدار بھی برقرار رہیں گی اور قانون کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔ دہشت گردی کے اس ماحول میں بھی برقعہ پوش خواتین کو پولیس اہلکار ہاتھ لگانے سے جھجکتے ہیں۔ ڈرتے ہیں کہ کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ اسی طرح قبائلی علاقوں میں مرد پولیس والوں کا گھروں میں داخلہ ناممکن ہوتا ہے۔ اب یہ خواتین پولیس اہلکاروں کی وجہ سے مشکل کام بھی آسان ہوگا۔ چالاک دہشت گرد اور مجرم اپنے سیاہ کاموں میں برقعہ پوش خواتین کو بھی استعمال کرتے ہیں یا خود ہی برقعہ پہن کر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اب ان کے لئے قانون کو دھوکہ دینا آسان نہیں رہے گا۔ خیبر پی کے کے مذہبی سیاسی اور سماجی حلقوں کو خواتین پولیس میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اب یہ 3 بہادر خواتین امید ہے خیبر پی کے پولیس میں بہار‘ وقار اور بہادری کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوں گی اور بہت سی ان دوسری خواتین کے لئے حوصلے کا باعث بنیں گی جو ہمت اور حوصلہ رکھتی ہیں جرائم کے خلاف لڑنے کا اور لوگوں کی خدمت کا۔
....٭....٭....٭....٭....٭....
شہزاد احمد میڈیا سے بات کرتے کرتے رک گئے۔
عوام تو کئی دن سے ان کے حقائق سے پردہ اٹھانے والے بیانات کے منتظر تھے مگر شاید اس ڈر سے کہ حال دل ان کو سنایا تو وہ برا مان جائیں گے شہزاد نے بھی چپ رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔مگر سچ کہنے سے اگر ”بھانبھڑ مچدا اے“ تو مچنے دے۔ آخر کب تک حالات کا رونا روتے ہوئے ہم سچ سے پرہیز کرتے رہیں گے۔ جو بھی دل میں ہے شہزاد احمد کو چاہئے تھا کہ وہ کھل کر بیان کر دیتے۔ اس طرح ان کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہو جاتا۔ آخر کب تک وہ یہ بوجھ دل میں لئے پھرتے رہیں گے۔ یہاں تو دور دور تک شہریار سے لے کر سیٹھی تک کسی کے بھی جانے کے امید نظر نہیں آتی۔ سب ویسے ہی راج سنگھاسن پر ڈیرا ڈالے بیٹھے ہیں ہاں البتہ چھوٹے موٹے مہروں کو بکرا بنایا جا رہا ہے۔ ان کی قربانی دی جا رہی ہے۔ مزہ تو جب کہ ان سنہری سینگوں والے مینڈھوں کو کرکٹ دیوی کی قربان گاہ پر قربان کیا جاتا۔ مگر یہ مقدس مینڈھے شاید بادشاہوں کے منظور نظر ہیں اسلئے انہیں چھیڑا تک نہیں جاتا الٹا انہیں کھلا کھلا کر اور فربہ کیا جا رہا ہے۔ اب دیکھتے ہیں شہزاد احمد کی آہ نارسا کے جواب میں انہیں سزا ملتی ہے یا اچھا صلہ ملتا ہے۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ کرکٹ کے میدانوں میں خوشی کے شادیانے اس وقت تک نہیں بجیں گے جب تک سنہری سینگوں والوں کی قربانی نہیں ہو گی۔