کرپشن فری پاکستان: سراج الحق سے ایک نشست
ملک پر چھائی کرپشن کی کالی گھٹاﺅں کی فضاءمیں جماعت اسلامی نے ”کرپشن فری پاکستان“کی جو تحریک شروع کی ہے اس حوالے سے اس جماعت کو عوام کی جانب سے خاصی پذیرائی ملی ہے، قاضی حسین احمد مرحوم کی وفات کے بعد ہم جس جماعت اسلامی کو ڈھونڈ رہے تھے اس کی جھلک آج ہمیں سراج الحق کی قیادت میں نظر آرہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری ملی سیاست میں جماعت اسلامی تاریخ ساز ہی نہیں کردار ساز اور لیڈر ساز جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ مجدد العصر سید مودودی کی روشن تحریروں نے قلوب و اذہان کی تاریکیوں کو کافور کیا۔ مغربی جمہوریت، میکانکی انداز فکر، اشتراکیت، اشتمالیت اورمغربی سرمایہ دارانہ نظام فکر کے تار و پود سید مودودی کی فکر گستاخ جس طرح فضائے بسیط میں بکھیری، وہ انہی کا کام تھا۔ عصر حاضر میں عصری تقاضوں کے تناظر میں سادہ پیرائے میں اسلام کی جو دل پذیر توضیع و تشریح انہوں نے کی، اس کی وجہ سے لاکھوں بہکے ہوئے ذہن راہ راست پر آئے وگرنہ دو رکعت کے اماموں کے بس میں نہیں تھا کہ وہ ڈارون کی تھیوری آف آرگینک ایوولیوشن، فرائیڈ کے جنس آلود نفسیاتی تجزیوں، ہیگل کے فلسفہ جدلیات اور مارکس کی تحریروں سے پھوٹنے والے بدلگام سیل ساحل شکن کے راستے میںکوئی بند ساباندھ سکتے، کوئی پشتہ تعمیر کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قائدین پر کرپشن کے الزامات کی بازگشت کم ہی سنائی دیتی ہے اور ملک کے لیے یہ بات نیک شگون ہے کہ پاکستان کی کوئی تو پارٹی ایسی ہے جس کا نام کرپشن کے بڑے بڑے ناموں میں نہیں آتا۔ ورنہ یہاں ہر سیاستدان ملک کو لوٹ کر بیرون ملک اثاثے بنانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا ۔
جماعت اسلامی کی تحریک ”کرپشن فری پاکستان“ میں کیا نیا ہے ؟ کیا پرانا ہے؟ اس حوالے سے راقم کی امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے تفصیلی ملاقات ہوئی،ان کی زندگی میں جو سادگی پہلے تھی، سو اب بھی برقرار ہے۔ وہ کسی پروٹوکول یا سرکاری تام جھام کے بغیر ہی اپنے منصبی کام انجام دیتے پھرتے ہیں، وہ ایسے انسان ہیں کہ بقولِ شاعر،جن سے مل کے زندگی سے عشق ہوجاتاہے۔ ملک میں کرپشن کے حوالے سے کون نہیں جانتا لیکن بطور صحافی میں یہ سب ان سے سننے کے لیے بے تاب تھا انہوں نے فرمایا کہ پاکستان میں مالی،اخلاقی اورانتخابی کرپشن ہے جس نے ہمارے ملک کوجکڑاہواہے۔جماعت اسلامی کانقطہ نظر یہ ہے کہ ”نیب یعنی محکمہ احتساب کااندازاحتساب بھی عجیب ہے جوشخص ار بوں روپے لوٹتاہے وہ کروڑوں کی سودے بازی کرکے چھوٹ جاتا ہے اس کو قانونی حیثیت دینے کیلئے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے ”پلی بارگین “یعنی سودے بازی کی درخواست۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ لٹیرے نے قومی خزانے اور عوامی وسائل سے 10 ارب روپے لوٹے ہیں۔ اب اس پرہاتھ پڑا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں 5 ارب روپے ادا کرنے کو تیار ہوں۔ عموماً ایسی درخواستیںقبول کرلی جاتی ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف اوراحتساب ہے کہ لٹیرا لوٹ مار کی آدھی رقم یعنی5 ارب ہضم کرجائے اورصرف آدھی واپس کر دے۔ ہوتا یوں ہے کہ جو 5 ارب واپس کئے جاتے ہیں اسکے علاوہ 2 ارب یاکم وبیش، ان ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں جن کی ذمہ داری مجرموں سے لوٹی ہوئی رقم واپس لینا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اسے بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ اب آپ بتائیے کہ 10ارب میں سے 5ارب تو پھر بھی لوٹنے والے نے اپنی جیب میں ڈال لئے اوراس میں جو رقم بطور رشوت دی ہے وہ بھی لوٹ کا مال ایک لٹیرے سے دوسرے لٹیرے کو منتقل ہو جاتا ہے۔مال مفت دل بے رحم کا محاورہ ایسے ہی عناصرکیلئے بولا جاتا ہے، بلکہ ہمار ے ملک کے تناظر میں تو پنجابی کی ضرب المثل زیادہ مناسب ہے۔”چوراں دے کپڑے ڈانگاں دے گز“ (یعنی چوری کیا ہوا کپڑا گزوں سے ناپنے کے بجائے لمبی لاٹھیوں سے ناپاجاتاہے)۔انہوں نے کہا کہ ہماری کرپشن کے خلاف جنگ سیاسی نہیں یہ خالصتاََ ملکی مفاد میں ہے ، ہم اسے سیاسی مقاصد سے بالا تر ہو کر چلائیں گے ابتدائی طور پر آگاہی مہم پر کام کریں ، جس کا مقصد ہر شخص تک اپنا پیغام پہنچانا ہے، کیوں کہ اس ملک کو جب تک کرپشن سے نجات نہیں دلائی جائے گی تب تک کوئی نظام آگے نہیں چل سکتا اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے ۔
جب ان سے پانامہ پیپرز کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے طنزیہ انداز میں نوازشریف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں قوم سے خطاب نہیں کرنا چاہیے تھا ایسا کرنے کے بعد وہ خود پھنس گئے ہیں اور اب انہیں آئس لینڈکے وزیراعظم اور دوسرے عالمی رہنماﺅں کی تقلید کرتے ہوئے ملکی مفاد میں خود ہی استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ پاکستان میں خاندانی نظام قائم ہے باپ اپنے بیٹوں کے ذریعے ہی کاروبار چلاتے ہیں۔ ہم نے کرپشن فری پاکستان کی جو تحریک چند ماہ پہلے شروع کی تھی اب اس کی گونج پارلیمنٹ اور ملک بھر کے چوکوں اور چوراہوں میں سنائی دے رہی ہے۔ پاناما لیکس کے بعد حکمرانوں اور سال ہا سال سے اقتدار کے ایوانوں میں براجمان اشرافیہ کا اصل چہرہ قوم کے سامنے آگیا ہے۔ کرپشن کا علاج کئے بغیر ملک کے حالات نہیں سدھر سکتے۔حکمران قوم کو ادھر ادھر کی باتوں میں الجھانے کی بجائے اپنے دامن پر لگے دھبے صاف کریں۔پاکستان اللہ کا انعام ہے اس کے ساتھ بے وفائی کرنے والوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ پاناما لیکس کی پہلی قسط نے ہی حکمرانوں کے اوسان خطا کردیئے ہیں۔پارلیمنٹ ہو یا ملک کے گلی کوچے ہر جگہ حکمرانوں کی کرپشن کے قصے ہیں۔باریاں بدل بدل کر اقتدار میں آنے والے ایک دوسرے کی لوٹ مار اور کرپشن کو چھپالیتے تھے مگر اب یہ کرپشن بوتل کے جن کی صورت میں باہر آتی دکھائی دے رہی ہے۔حکمرانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اعتراف جرم کرکے مستعفی ہوجائیں اور جب تک ان کے دامن پر لگے داغ دھل نہیں جاتے اقتدار کی کرسی سے الگ رہیں۔انہوں نے کہا کہ قوم اس بات پر یکسو ہے کہ ملک کو لوٹنے والوں کا بے رحم اور کڑا احتساب ہونا چاہئے۔احتساب کے اداروں نے بھی اب حکمرانوں کی چاکری چھوڑ کر عوامی امنگوں کے مطابق لٹیروں کا احتساب نہ کیا تو انہیں اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔عوام سمجھتے ہیں کہ خرابی کے اصل ذمہ دار وہ ادارے ہیں جنہیں قومی امانتوں کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔آج غربت کے ہاتھوں تنگ لوگ گردے بیچنے اور فٹ پاتھوں پر بھوکے سونے پر مجبور ہیں مائیں اپنے معصوم بچوں سمیت خود کشیاں کررہی ہیں اور دوسری طرف بے حس سوداگروں نے ان کی خون پسینے کی کمائی کے اربو ں ڈالرلوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کروادیئے ہیں اور بیرونی بنکوں اور آئی ایم ایف سے قرضے لے کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔
اس ملک کے عام آدمی کیلئے سیاست شجر ممنوعہ ہے۔ عام آدمی یا تو ٹیکس دیتا ہے یا بڑے بڑے بل د یتا ہے۔ جلسوں میں شرکت کرتا ہے اور اپنی بے بسی پر سینہ کوبی کرتا ہے۔لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس میں سیاسی شعور بیدار ہوجائے‘ اورانتخابات میں وہ سانپوں کے منہ میں دودھ ڈال کر سیاستدانوں کو اڑدھا نہ بنائے۔ آئین کی دفعہ 62اور 63 کی سیاہی الیکشن کمیشن کا منہ چڑا رہی ہے۔اخلاقی کرپشن کا حال یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے ادارے فحاشی روکنے کے بجائے فحاشی کی تعریف کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔
آخر میں انہوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت ہی قومی خرابیوں کی اصل جڑ ہوتی ہے لیکن روز قیامت ہم سب کو اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا۔ اس روز دوسروں کی خرابیاں ہمارے لیے ڈھال نہ بن سکیں گی بلکہ خراب لوگوں کو نہ ٹوکنے اور نہ روکنے کا وبال ہم پر بھی ہوگا۔ لہٰذا ہم سب کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔اپنی سابقہ کوتاہیوں پر اپنے رب سے گڑ گڑا کر معافی مانگنی چاہیے۔سچے دل سے وعدہ کیا جائے کہ آئندہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام نہیں کریں گے۔اجتماعی معاملات سے لاتعلق رہنے کے بجائے یہ معاملات ان لوگوں کے سپرد کریں جو باضمیر اور باکردار ہوں۔اور حکمرانوں کو سچائی کا دامن ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے اگر وہ پیسہ باہر لے کر گئے ہیں اور کاروبار کیا ہے تو انہیں اخلاقاََ اپنے آپ کو عوام کے سامنے پیش کردینا چاہیے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ مال بھی عوام کا کھائیں اور برا بھی انہیں کا سوچیں۔۔۔ اپنی اولادوں کے نام پر کیے ہوئے کاروبار بھی آپ کے ہی ہیں لہذا عوام اب جاگ چکی ہے وہ کبھی آپ کے بہکاوے میں نہیں آئے گی، اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت عطا فرمائے (آمین)