طالبان کی مذاکرات سے ’نہ ‘نے 4 ملکی گروپ کی تیاریوں کو بریک لگا دیئے : بی بی سی
کابل ( بی بی سی )افغانستان میں ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی کوششیں بظاہر فی الحال تعطل کا شکار ہیں۔ طالبان کی جانب سے صاف نہ نے چار ملکی گروپ کی تیاریوں کو بھی بریک لگا دیئے ہیں۔ بعض ممالک کا کہنا ہے کہ پاکستان قیام امن کے لیے سنجیدہ ہے لیکن یہ سنجیدگی عملی صورت اختیار نہیں کر پا رہی ہے۔ مذاکرات نہ ہونے کی صورت میں پاکستان کو کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ اس کا تفصیلی جائزہ ان تین مضامین میں لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سلسلے کی دوسری قسط حاضر ہے۔یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ افغانستان میں جاری جنگ ہمسایہ ملک پاکستان کے لیے کتنی نقصانات کا باعث ہے۔ پاکستان سرحد پار خونی قضیے کی بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اور ادا کر بھی رہا ہے۔ ایسے میں مصالحتی عمل شروع ہونے اور قیام امن سے ہمسایہ ملک پاکستان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ جنگ میں طوالت اس کے لیے کیا کیا مسائل پیدا کرسکتی ہے یا پہلے سے درپیش مسائل کی دلدل کو کتنا مزید گہرا کرسکتی ہے؟سب سے پہلے تو معاشی محاذ پر اگر دیکھا جائے تو پاکستان، افغانستان سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا پا رہا جتنا کہ گنجائش ہے۔پاکستانی اہلکار ہمیشہ افغان پناہ گزینوں کے معاشی بوجھ کی بات کرتے ہیں لیکن قیام امن کی صورت میں افغانستان کی منڈی انھیں کتنا فائدہ دے سکتی ہے اس بارے میں بات کم ہی ہوئی ہے۔افغان اہلکاروں کے مطابق پرامن افغانستان میں وہ 70 سے 80 ارب ڈالرز زیادہ اقتصادی منافع کما سکتے ہیں۔ یہ اعداوشمار پاکستان کے جی ڈی پی کو مضبوط کرسکتا ہے۔پاکستان کی طرح افغانستان کی قیادت خصوصا صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا مضبوط پہلو معیشت ہے۔ وہ اور نواز شریف مل کر اقتصادی مواقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ڈاکٹر اشرف غنی پہلے ہی افغانستان میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز کے قیام کا اعلان کرچکے ہیں۔ پاکستانی برآمدکندگان یہاں سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت افغانستان کے بڑے تجارتی ممالک میں سے ایک ہے اور سالانہ تین ارب ڈالرز کی برآمدات کر رہا ہے۔سٹیٹ بنک کے سابق سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں افغانستان کے ساتھ آزادانہ اور باہمی تجارت کے معاہدوں کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ انھوں نے دونوں مملک کو درآمدی بندرگاہوں پر مشترکہ کسٹم یونین کی تجویز بھی دی ہے تاکہ سامان کی باآسانی نقل و حرکت ہوسکے ۔افغانستان کی منڈی پر پاکستان کی نظر ہو یا نہ ہو، چین کی ضرور ہے۔