پانامہ لیکس: تفتیش ہماری ذمہ داری ہے یا انتظامیہ کی؟ہر بات پر از خود نوٹس یا کمشن کا مطالبہ ہوتا ہے، عدلیہ کو اور بھی کام ہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ دی نیشن رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے سندھ میں مئیر اور ڈپٹی مئیر کے شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے کام کرنے کی پابند ہے، سب کہنے کی باتیں ہیں، لولے لنگڑے سسٹم کو بیساکھی سے چلانا پڑتا ہے جو بھی لو لا لنگڑا سسٹم ہے اسے چلنا چاہئے، کسی ایک شخص یا ادارے کو نشا نہ نہیں بنا رہے بلکہ پورا سسٹم خراب ہے، ملک میں لگاتار دو ہی جماعتیں برسراقتدار آتی رہی ہیں اور دونوں ہی سے غلطیاں ہوئی ہیں، کہنے کو بہت کچھ ہے مگر مناسب ہے کہ لب کشائی کم کریں، عدلیہ پر تنقید کی جاتی ہے، ہم سے کہتے ہیں سوموٹو نوٹس لیں یا سپریم کورٹ کمشن کیوں نہیں بناتی یہ بتائیں تفتیش کی ذمہ دار ایگزیکٹو ہوتی ہے یا عدلیہ؟ کمشن بنانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور انتظامیہ کے پاس تحقیقات کے لئے ادارے موجود ہیں، میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کا معاملہ اتنا بڑا نہیں صرف انا کا مسئلہ ہے، ورنہ سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر حل نکال سکتی ہیں، پارلیمنٹ میں اکثریتی پارٹیوں کا چھوٹی جماعتوں کو اعتماد میں نہ لینا روایت بن چکی ہے، ملک میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے، صاف شفاف اور غیر جانبدارانہ الیکشن کا انعقاد یقینی بنانا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، شفافیت کے لئے تو مردم شماری بھی ضروری ہے، 1998 ء میں آخری مرتبہ مردم شماری ہوئی، جس کے بعد اگلی مردم شماری 2008 ء میں ہونا تھی لیکن نہیں ہوئی۔ اگر عدالت نے مردم شماری کے بغیر الیکشن نہ کرانے کا حکم دے دیا تو ملک کہاں کھڑا ہو گا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ پیپلز پارٹی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لیے شو آف ہینڈز ضروری ہے اور یہ ا س لئے بھی کیا گیا کہ انتخاب میں شفافیت آسکے، خفیہ رائے شماری کے تحت کیا پتہ لگتا ہے کس نے کس کو ووٹ دیا، سیاسی جماعتیں روتی ہیں کہ ہمارے ارکان بک گئے، بابر اعوان نے مزیدکہا کہ بیلٹ پیپر میں ووٹر کو بعض اوقات مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر ایک ہی نام مثلاً محمد شریف کو دو بار لکھا جائے تو ووٹر کس کو ووٹ دے، چیف جسٹس نے کہا کہ شفاف انتخابات کے لئے شو آف ہینڈ اتنا ہی ضروری ہے تو 2013 ء کے عام انتخابات کو کیوں تسلیم کیا گیا، اگر ہاتھ اٹھا کر میئر ڈپٹی، میئر اورچیئرمین کا انتخاب اتنا ہی شفاف ہے تو وزیراعظم کا انتخاب بھی ایسے ہونا چاہئے، پیپلز پارٹی کو اگر جمہوری تقاضوں کا اتنا خیال تھا تو 4 بار بلدیاتی نظام میں ترامیم کیوں کیں، بعض اوقات حالات کو دیکھتے ہوئے قانون ساز مصلحت سے کام لیتے ہیں، ملک کا جمہوری نظام لولا لنگڑا ہے ہمیں اس کو چلانا ہے، کسی ایک شخص یا ادارے کا قصور نہیں میں پورے نظام کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں، بابر اعوان نے کہا کہ سسٹم ٹھیک ہے لیکن اس کو بیساکھیاں تھما کر لولا لنگڑا کر دیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر مناسب ہے کہ لب کشائی کم کریں، اقلیتی نمائندہ رمیش کمار نے عدالت سے شو آف ہینڈ کی بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے الیکشن کروانے کی اپیل کی۔ سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ووٹنگ خفیہ نہیں بلکہ تقسیم سے ہوتی ہے اور ممبران کو تقسیم کر دیا جاتا ہے اور سب کو معلوم پڑ جاتا ہے کہ کون کس کو ووٹ دے گا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر سینٹ الیکشن کے طریقہ میں خرابی ہے تو آپ اس میں تر میم کر لیں تو فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کہے تو بدل لیں گے تو چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت کو بچانے کے لئے ہم نے 21ویں ترمیم پر کمپرومائز کیا، آئین میں جب بھی کوئی ترمیم کی جاتی ہے اس کا مقصد بہتری ہوتا ہے، تباہی کے لئے ترمیم نہیں ہوتی، بعض اوقات حالات کو دیکھ کر عدلیہ کو بھی مصلحت سے کام لینا پڑھتا ہے، 21ویں آئینی ترمیم کہ فیصلہ کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ عدلیہ نے شدید تحفظات کے باوجود صرف ابزرویشن دے کر چھوڑ دیا ہے۔ عدالت نے ایم کیو ایم کے وکیل فروغ نسیم کو آئندہ سماعت پر اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے اور سماعت 14اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔ نیوز ایجنسیوں کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر مناسب ہے کہ ہم لب کشائی کم کریں، ہمیں کہنے والے کہ فلاں معاملے پر سو موٹو لیں، کمشن بنائیں، بتائیں تفتیش کی ذمہ دار ایگزیکٹو ہوتی ہے یا عدلیہ؟ لولے لنگڑے سسٹم کو بیساکھی سے چلانا پڑتا ہے، جو بھی لولا لنگڑا سسٹم ہے اسے چلنا چاہئے، پورے ملک میں اصلاحات کی ضرورت ہے، ہر بات پر سوموٹو کا کہا جاتا ہے۔ ہماری اپنی خوداریاں اور دائرہ کار ہے، عدالت کے پاس اور بھی بہت کام ہیں، تفتیش کیلئے حکومت کے اپنے ادارے ہیں، انکا کہنا تھا کہ حلقہ بندیاں اس وقت تک درست نہ ہوں گی جب تک مردم شماری نہ ہو جائے۔ آن لائن کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں کو ٹال کر ہم پر ڈال دیتی ہے۔ عدالت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کی پابندی ہے۔ دی نیشن کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی اپنی ذمہ داریاں‘ حدود اور کام ہوتے ہیں۔