’’پانامہ لیکس‘‘ حکومت چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنانے پر غور کر رہی ہے
لاہور (ایف ایچ شہزاد سے) حکومت کمشن آف انکوائری ایکٹ 1956 کے تحت انکوائری کمشن کی بجائے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن تشکیل دینے پر بھی غور کر رہی ہے جو پانامہ لیکس کے متعلق تحقیقات کرے گا۔ حکومت کو قانونی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اعلی عدلیہ انکوائری کمشن میں شامل ہونے سے انکار کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پانامہ لیکس کے ایشو پر انکوائری کمشن تشکیل دینے کے حکومتی فیصلے پر مزید تنقید ہو گی۔ اس لئے سپیشل قانون کے تابع جوڈیشل کمشن کی تشکیل پر غور کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق اپوزیشن کے شدید دبائو اور سابقہ انکوائری کمشنز کی سفارشات پر عدم عمل درآمد کے باعث حکومت کو جوڈیشل کمشن کی تشکیل کا مشورہ دیا گیا ہے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق ریٹائرڈ ججز نے اپوزیشن خصوصاً تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے عدم اعتماد کے باعث انکوائری کمشن کی سربراہی قبول نہیں کی۔ جبکہ اعلی عدلیہ کے بیشتر ججز کو سانحہ ماڈل ٹائون پر بنائے گئے کمشن کی سفارشات پر وزراء اور حکومتی شخصیات کی تنقید اور سفارشات پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث تحفظات ہیں۔ دوسری طرف بار ایسوسی ایشنز کے اعلی عہدیداروں نے بھی عدلیہ کو تجویز دی ہے کہ وہ حکومت کے تجویز کردہ انکوائری کمشن میں شامل نہ ہوں۔ کیونکہ پی آئی سی انکوائری کمشن، فلڈ انکوائری کمشن اور سانحہ ماڈل ٹائون انکوائری کمشن سمیت درجنوں انکوائری کمشن کی سفارشات سب کے سامنے ہیں۔ وکلاء راہنمائوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت سپیشل قانون کے تحت با اختیار جوڈیشل کمشن تشکیل دینے کا فیصلہ کرتی ہے تو چیف جسٹس آف پاکستان اس بارے فیصلہ کر سکتے ہیں۔