• news

اعلیٰ عدلیہ میں ججز بڑھانے کی مخالفت‘ روز روز آئین سے نہیں کھیل سکتے: حکومت

اسلام آباد (آن لائن) حکومت نے اعلی عدلیہ میں ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کر دی ہے اور کہا ہے کہ آئین سے روز روز نہیں کھیلا جا سکتا انتہائی ضرورت کے وقت آئین میں ترمیم کی جاتی ہے وزیر مملکت بیرسٹر ظفراللہ خان نے کہا کہ ججز کی تعداد بڑھانے کے حوالے سے وزیراعظم نے کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان تمام معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے کر قائمہ کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ایک ماہ تک معاملہ موخر کر دیا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں آئینی ترمیمی بل 2016 ، توہین عدالت ترمیمی بل 2016 ، بلڈنگ کوڈ ، سینیٹر نجمہ حمید کے سینیٹ اجلاس 2010 میں پاکستان سٹینڈر اینڈ کوالٹی کنڑول اتھارٹی سے ملاوٹ شدہ اشیاء تیار کرنے والوں کے خلاف کئے گئے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر ظہیر الدین بابر کے آئینی ترمیمی بل 2016 کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ بل پہلے دو دفعہ کمیٹی کے ایجنڈا میں لایا گیا ہے ۔ سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی ، سینیٹر سیف علی خان ، سینیٹر سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ بل میں ترمیم ضروری ہے ججوں کی ایڈہاک پر تقرری ختم ہونی چاہیے۔ قانون کا غلط استعمال کیا جاتا ہے سپریم کورٹ میں زیادہ کام ہے تو ججز کی تعداد بڑھانے کی سفارش سینیٹ کے مجموعی ایوان کی کمیٹی نے بھی فوری اور سستے انصاف کے حوالے سے کی تھی سیکرٹری قانون نے کہا کہ آئین ایسی چیز ہے جس کے ساتھ روز رو ز نہیں کھیلا جا سکتا۔ جب عارضی طور پر سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد بڑھانی ہو تو ایڈہاک پر تقرری کی جاتی ہے تمام سیٹیں مکمل ہونے پر۔ اس سے کسی کی پروموشن پر اثر نہیں پڑتا۔ چیئرمین کمیٹی نے ایک ماہ تک معاملہ موخر کر دیا۔ اجلاس میں چیئرمین پاکستان انجینئرنگ کونسل نے کہا کہ بلڈنگ کوڈ تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے مکمل کر لیا گیا، وزارت قانون کو ویٹ کرنے کیلئے بھیج دیا گیا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں بل کا تفصیل جائزہ لیا جائے گا۔بلڈنگ کوڈ ملک کیلئے بہت بڑا کارنامہ ثابت ہوگا۔ سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ میرے دور میں یہ ادارہ کرپٹ ترین تھا ٹمبر مافیا کے ساتھ مل کر ادارے نے جنگلات تباہ کر دیئے 26 میںسے19 مضر صحت پانی کی کمپنیاں کام کر رہی ہیں جب تک یہ ادارہ ٹھیک نہیںہوگا معیار اور کوالٹی کنڑول نہیں ہو سکے گا۔

ای پیپر-دی نیشن