جلد ترقی کیلئے ڈیپوٹیشن کا راستہ اختیار کرنا کلچر بن چکا‘ سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائند ہ نوائے وقت ) سپریم کورٹ میں سی ڈی اے میں غیر قانونی ترقیوں اور ڈیپوٹیشن سے متعلق سوموٹو کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ڈیپوٹیشن پر آنے کے بعد سی ڈی اے میں ضم ہونے والے افسروں کی اپنے محکموں میں واپس ہونے والے متاثرہ افراد سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی کردی ہے، عدالت نے قرار دیا کہ ڈیپوٹیشن پر آئے افسروں کے ضم ہونے سے سی ڈی اے سینیئرز افسروں کی ترقی رک جاتی ہے، جلدازجلد ترقی کرنے کیلئے ڈیپوٹیشن کا راستہ اختیار کرنا ایک کلچر بن گیا ہے ، محکمے غلط کام خود کرتے ہیں لیکن برائیاں عدالت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ متاثرہ افسروں کے وکیل نے بتایاکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں ڈیپوٹیشن پرآنے کے بعد ضم ہونے والے تمام افسروں کو متعلقہ محکموں میں واپس بھیجنے کاحکم جاری کردیاگیا ہے جس سے ادارے کی کارکردگی متاثرہورہی ہے، ہماری استدعا ہے کہ تمام افراد کوواپس بھیجنے کی بجائے کوئی پیمانہ مقررکیا جائے اور پھر کیس ٹوکیس معاملے کو دیکھا جائے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ ڈیپوٹیشن پر افسروں کو بلا کر سی ڈی اے کے افسروں کو دوسرے محکموں میں بھیجا جاتا رہا بتایاجائے کہ سی ڈی اے کاکوئی افسر کس طرح کسی دوسرے محکمے میں کام کرسکتاہے۔ سندھ حکومت نے اتنی گڑ بڑ نہیں کی جتنی سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو ضم کر کے کی گئی ہے۔ ایک شخص گریڈ سترہ میںبھرتی ہوکرسی ڈی اے میں سالہا سال ترقی کا انتظار کرتا ہے جبکہ دوسرا ڈیپوٹیشن پر آ کر مختصر مدت میں گریڈ 21 پر پہنچ جاتا ہے۔ ڈیپوٹیشن والے ترقی کرتے رہے اور ادارے کے اپنے ملازمین کو دوسری جگہوں پر ڈیوٹی کیلئے بھیجا جاتا رہا، کیا سی ڈی اے میں کام کرنے والوں کو ترقی دینا ان کا حق نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیپوٹیشن کا راستہ اختیار کرنا ایک کلچر بن گیا ہے ، محکمے غلط کام خود کرتے ہیں لیکن برائیاںعدالت کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں‘ چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارامقصد کسی کی دل آزاری نہیں نہ کسی مخصوص طبقہ کونشانہ بنایا جا رہا ہے ڈیپوٹیشن پر آنے والوں سے سی ڈی اے کے ملازمین ہی متاثر ہوئے ہیں عدالت نے ڈیپوٹیشن پرآنے والے ڈاکٹرز کو اصل محکموں میں واپس بھیجنے سے متعلق حکم امتناعی کی استدعا مسترد کر دی۔