پانامہ لیکس
مُلکی سیاست میں ہیجان اور غیر سنجیدگی اب ایک عام سی بات لگتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عوام اب تقریباً ہر بات کو سُنی اَن سُنی کر دیتے ہیں۔ ہر بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے سے وہ چیزیں بھی غیر اہم ہو جاتی ہیں جنہیں نہیں ہونا چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان تو ہیں ہی لیکن ہمارا سوشل اور الیکٹرونک میڈیا بھی اپنی دُکان چمکانے میں بھرپور طریقے سے مصروف ہے۔ اس طرح کی صورتحال دُنیا میں شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ ہر جمہوری ملک میں آزادیِ رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے اور حزبِ اختلاف کی اہمیت سے بھی کیونکہ اُنہیں حکمرانی کا حق عوام ہی دیتے ہیں۔ ہماری سیاست کی طرز بھی نرالی ہے اور میڈیا کا طرزِ عمل بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی سکینڈل گھڑا جاتا ہے اور پھر اس پر اپنی اپنی دُکان چمکائی جاتی ہے۔ اگر رات کو ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے ٹاک شوز دیکھے جائیں تو لگتا ہے کہ شاید صُبح دیکھنے کو نہ ملے ۔ عوام ذہنی امراض کا شکار ہونے لگے ہیں اس طرح کی باتیں سُن کر مگر کسی کو بھی اس کا احساس نہیں۔ حزبِ اختلاف کو تو اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے کوئی نہ کوئی موضوع چاہیے اور وہ ایک کے بعد ایک ملتا رہتا ہے۔ الزام تراشی، جھوٹ ،بہتان اور کردار کشی ہماری سیاست اور زندگیوںکا وطیرہ بن چُکا ہے۔ لوگ ہم پر ہنستے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اگر سوشل میڈیا کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں سے بُرا اس دُنیا میں کوئی ہے ہی نہیں اور سب سے شرمناک بات تو یہ ہے کہ نہ کسی رشتے کا تقدس ملحوظِ خاطر رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی عمر اور عہدے کا جو کہ ہماری ثقافت اور روایات کے بالکل منافی ہے۔آجکل پانامہ لیکس کا چرچاہے ویسے تو ان پیپرز میں دُنیا جہاں کے با اثر افراد کا ذکر ہے مگر لگتا ہے کہ ساری جنگ پاکستان میں ہی لڑی جا رہی ہے۔ الزام تراشی اور نئے نئے مطالبات ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ چل نکلا ہے۔ لگتا ہے ملک کا سب سے بڑا اہم مسئلہ اب یہی ہے۔ دہشتگردی، معیشت، توانائی بحران اور دُشمن کی ملک دُشمن کاروائیاں سب پس پردہ چلی گئی ہیں۔ ان لیکس میں دُنیا کے کئی ممالک کے سربراہان سمیت کئی اہم شخصیات کا براہِ راست نام سامنے آیا ہے جن مین چین،روس اور برطانیہ جیسے اہم ممالک شامل ہیں مگر کہیں بھی ایسا شور شرابا نہیں۔ ہر کوئی اپنی اپنی رائے دے رہا ہے اور بظاہر مقصد صرف ذاتی تشہیر اور مفاد لگتا ہے۔ وزیرِ اعظم کا نہ تو براہِ راست اس میں نام سامنے آیا ہے اور نہ ہی قانونی طور پر انہیں موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے مگر ساری توپوں کا رُخ اُن کی طرف ہے۔ وزیرِ اعظم کی طرف سے قوم سے خطاب کے دوران اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان بھی کیا جا چُکا ہے۔ اس اعلان کے بعد تمام مخالفین کو چاہیے کہ اپنے الزامات کو ثابت کریں تا کہ اس معاملے کو قانونی طور پر منطقی انجام تک پہنچایا جائے مگر یہ تو تب ہو جب مقصد غلط کو غلط ثابت کرنا ہو یہاں تو مقصد صرف اپنا مفاد ہے۔ اس طرزِ عمل کیوجہ سے یہی ہمارے ہاں حقیقی احتساب کا کلچر فروغ نہیں پا سکا۔ مخالفت برائے مخالفت کی سیاست میں جو بھی کر لیں دوسرے کو نیچا دکھانا ہی مقصد ہوتا ہے۔ آج کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جائے مگر حال ہی میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیق کرنیوالے کمیشن کی بات کس نے مانی تھی باوجود اسکے کہ اُس کمیشن کے سربراہ خود چیف جسٹس یہی تھے۔ پانامہ لیکس میں زیادہ تر اُن ممالک کے افراد اور حکمرانوں کے نام شامل ہیں جو عمومی طور پر امریکہ مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ کیا امریکہ اور یورپ میں سارے فرشتے بستے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی بحران کی Timingاور اس سے فائدہ اُٹھانے والوں کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں۔ خارجہ پالیسی کے محاذ پر بہت سی اہم کامیابیوں،توانائی بحران کے خاتمے کیلئے تیزی سے کی جانیوالی کو ششوں،دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اہم کامیابیوں اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد کیوجہ سے ہمارے دُشمن پریشان ہیں۔ ہمارے دُشمنوں بالخصوص ہندوستان کی ہر وقت یہ کوشش ہے کہ ملک کے اندر بے چینی اور عدمِ استحکام کو ہوا دی جائے تا کہ ان محاذوں پر ہونیوالی پیش رفت کو روکا جا سکے۔ یہ بس تب ہی ہو سکتا ہے جب ملک کے اندر ہیجان ہو،عوام میں مایوسی اور اضطراب ہو تا کہ کوئی بھی یہاں آکر سرمایہ کاری نہ کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اور میڈیا کے کچھ حلقے اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اس طرح کی سازشوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں زیادہ تر ایسا کسی سازش کے طور پر نہیں کرتے بلکہ حالات سے فائدہ اُٹھانے کیلئے کرتے ہیں تا کہ حکومت کی ساکھ گرے اور اپنے جگہ بنائی جا سکے مگر ایسا کرنے میں وہ ملک کا بہت نقصان کر دیتے ہیں۔2014 کے دھرنوں سے ملک کو نقصان ہوا یہ اب کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں اور معاملے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے قانونی راستہ اپنایا جائے۔ اختلاف اور اظہارِ رائے ہر کسی کا جمہوری اور بُنیادی انسانی حق ہے مگر اپنے مجموعی فلاح کیلئے نقصان اور تماشا بننے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اگر دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے تو اپنے طرزِ عمل میں بہتری بھی اُتنی ہی اہم ہے۔ اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے احساسِ ذمہ داری سے کردار ادا کرنے سے ہی ہم بحیثیت قوم کوئی مقام حاصل کر سکتے ہیں ورنہ اسی طرح دُنیا کے سامنے تماشا بن کر مزید پستی کی طرف جاتے رہیں گے۔ ہمارے اس طرزِ عمل نے ہمیں دُنیا کیلئے بے وقعت بنا دیا ہے جس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔