• news

پارلیمانی لیڈروں سے رابطے کا حکومتی فیصلہ

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) حکومت نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے معاملہ پر تمام پارلیمانی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے، سیاسی قائدین سے مشاورت کے بعد اس سلسلہ میں حتمی قدم اٹھایا جائے گا۔ اس بات کا فیصلہ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار جو غیراعلانیہ طور پر قائم مقام وزیراعظم کا کردار ادا کر رہے ہیں کی صدارت میں پی ایم ہائوس میں منعقدہ اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا۔ اجلاس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف، وزیر اطلاعات پرویز رشید، وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق، وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال، وزیر قانون زاہد حامد، سینیٹر مشاہد اللہ، وزیر تجارت خرم دستگیر خان اور دیگر لیگی رہنمائوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں مجوزہ تحقیقاتی کمشن کے دائرہ کار سمیت دیگر متعلقہ معاملات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں طے پایا کمشن کی تشکیل اور اس سے متعلق دوسرے پہلوئوں پر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی قائدین سے رابطہ قائم کر کے انہیں اعتماد میں لیا جائے گا اور مشاورت کے بعد حتمی قدم اٹھایا جائے گا، اجلاس میں زور دیا گیا تعمیروترقی کے منصوبوں پر زیادہ تیز رفتاری سے عمل کیا جائے گا اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے گا۔ اجلاس میں زور دیا گیا ملک میں امن و امان کی بحالی، توانائی بحران کے خاتمہ، پاکستان چین اقتصادی راہداری اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں کو برق رفتاری سے جاری رکھا جائے گا۔ اجلاس میں ان تجاویز پر بھی مشاورت کی گئی جس سے انتخابات کو شفاف بنایا جا سکے۔ یہ تجاویز انتخابی اصلاحات کے حصہ کے طور پر پیکیج کا حصہ بنیں گے۔ دریں اثناء ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں کمشن بنانے کی تجویز میڈیا پر سامنے آنے کے بعد اس پر تحریک انصاف، پی پی پی، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ردعمل پر غور کیا گیا، ادھر ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمشن جلد سے جلد بنانے کی ہدایات کی ہیں، ذرائع کا کہنا ہے وفاقی حکومت نے جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی شرائط قبول کرلیں، وفاقی حکومت نے جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کو آگاہ کردیا، کمشن کو فرانزک ماہر اور اعلیٰ پولیس افسر سمیت دیگر ماہرین کی خدمات دی جائیں گی۔ بی بی سی کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے پانامہ لیکس سے متعلق پارلمینٹ میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم حکومت نے ان ملاقاتوں کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا۔ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں حکومتی اکابرین کا اجلاس ہوا جس میں پانامہ لیکس کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ پانامہ لیکس کے انکشافات سے متعلق تحقیقات کے لئے اعلان کردہ جسٹس سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں ممکنہ عدالتی کمشن کے بارے میں نوٹیفکیشن بھی جاری نہیں ہو سکا۔ جسٹس سرمد جلال عثمانی کے نام پر پیپلز پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جبکہ تحریکِ انصاف پاکستان موجودہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے آفتاب شیرپائو سے ملاقات کی۔ دونوں رہنمائوں نے میڈیا سے بات کی۔ عبدالقادر بلوچ نے کہا پانامہ پیپرز پر وزیراعظم انکوائری کرائیں گے۔ سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرکے ان کا نقطہ نظر معلوم کر رہے ہیں۔ آفتاب شیرپائو نے کہا پورا پاکستان پانامہ پیپرز کی انکوائری چاہتا ہے۔ ٹرمز آف ریفرنس تمام پارٹیوں کے وکلاء بیٹھ کر طے کر لیں تو بہتر ہو گا۔ مزید برآں حکومتی وفد نے پانامہ لیکس کے معاملے پر اے این پی رہنمائوں سے ملاقات کی، حکومتی وفد میں عبدالقادر بلوچ، سردار مہتاب عباسی شامل تھے۔ ملاقات کے بعد عبدالقادر بلوچ نے بتایا پانامہ لیکس کے معاملے پر حکومتی موقف پیش کیا۔ کمشن کے معاملے پر ایسا فیصلہ کریں گے جو سب کو قبول ہو۔ غلام احمد بلور نے کہا حکومت سے پوچھا پانامہ لیکس کے معاملے پر کیا چاہتی ہے پی ٹی آئی ٹیم سے جو بات کی وہی حکومتی ٹیم سے کی چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن کے مطالبے پر قائم ہیں۔ دھرنے کے حامی نہیں۔ وفاقی وزراء اور پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا غیر رسمی مشاورتی اجلاس ہوا ذرائع کے مطابق غیر رسمی اجلاس خواجہ سعد رفیق کی رہائش گاہ پر ہوا۔ اجلاس میں پانامہ لیکس پر حکومتی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ اے این این کے مطابق سپریم کورٹ بار نے پانامہ لیکس کے معاملے پر آرڈی نینس کے ذریعے انٹرنیشنل ٹاسک فورس تشکیل دینے کی سفارش کر دی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بار نے طویل مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ بار کے مطابق پانامہ لیکس کی تحقیقات کسی بھی طرح کے کمیشن سے کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ صدر سپریم کورٹ بار آج منگل کی صبح 11 بجے اپنی تجاویز سے متعلق باضابطہ اعلان کریں گے جس کے بعد ان تجاویز کو حکومت اور اپوزیشن کو بھجوا دیا جائے گا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بار نے حکومتی اور اپوزیشن دونوں کی تجاویز مسترد کر دیں۔ سپریم کورٹ بار نے پانامہ لیکس کے معاملے پر درمیانی راستہ نکال لیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے پانامہ لیکس پر دو تین دن میں تحقیقاتی کمشن بن جائے گا جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کے فیصلوں پر کبھی سوالات نہیں اٹھائے گئے۔ آف شور کمپنیوں کے لئے پیسے غیر قانونی طور پر نہیں بھجوائے گئے۔ پیسہ غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجا گیا تو غلط ہے۔ عمران خان کہہ چکے آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کوئی شک نہیں بھارت پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے۔ وزیراعظم کے مستعفی ہونے کی باتیں کہانیاں ہیں۔ نواز شریف وزیراعظم ہیں اور 2018ء تک رہیں گے۔ کمشن بننے سے دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ چاہتے ہیں جو بھی کمشن بنے اس پر سب کا اعتماد ہو۔ ضروری ہے کمشن رپورٹ آنے پر سب متفق ہوں۔ وزیراعظم نے میرے سامنے بھارتی وزیراعظم سے کہا علیحدگی پسند بلوچوں کے پاس بھارتی پاسپورٹ ہیں بھارتی پاسپورٹ بطور ثبوت دیں گے۔ نواز شریف کی کمپنیز کا معاملہ 1993ء میں نصیر اللہ بابر نے اٹھایا تھا۔ آئی ایس آئی حکومت گرانے کی سازش نہیں کر رہی۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعظم نواز شریف آج وطن واپس آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے خاندان کے ذرائع نے بتایا ہے وزیراعظم کو ڈاکٹروں نے صحت مند اور سفر کے قابل قرار دے دیا ہے اور وطن واپس آنے کی اجازت دے دی ہے۔ وزیر اعظم کے ترجمان کے مطابق نواز شریف آج کسی بھی وقت لوٹن ائرپورٹ سے وطن واپسی کا سفر شروع کریں گے۔ وزیر اعظم لاہور اتریں گے ان کی آمد 30 گھنٹے کے اندر متوقع ہے۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا صحتیابی کیلئے دعا پر قوم کا مشکور ہوں۔ طبی معائنے کے بعد طبیعت کافی بہتر ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا ہمیں آپ کی قائدانہ صلاحیتوں پر فخر ہے۔ وزیراعلیٰ نے میڈیا کو بتایا وزیراعظم نواز شریف خیریت سے ہیں۔ نواز شریف آج وطن واپس پہنچیں گے۔
اسلام آباد (عترت جعفری) پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لئے وزیراعظم وطن واپسی کے بعد خود پارلیمانی جماعتوں کی قیادت سے رابطہ قائم کریں گے اور انہیں جوڈیشل کمشن کی ہیئت‘ دائرہ اختیار اور دوسرے امور پر اعتماد میں لیں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار‘ زاہد حامد اور دوسرے ممبران نے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کے ہمراہ ہونے والے مختلف اجلاسوں میں جوڈیشل کمشن کی تشکیل کے حوالے سے ان جماعتوں کا مؤقف معلوم کیا اور حکومتی کمشن کے ٹی او آر اور دوسرے امور کے بارے میں مؤقف بتایا۔ وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق کی رہائش گاہ پر بھی رات کو ایک اہم اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر خزانہ بھی موجود تھے جس میں اپوزیشن سے رابطوں کے نتائج پر مشاورت کی گئی۔ ذرائع نے بتایا گزشتہ روز وزیر خزانہ کی صدارت میں دو ایسے اجلاس منعقد ہوئے جس میں پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے ارکان موجود تھے۔ وزیر خزانہ کی صدارت میں جاری اجلاس میں سرکاری ایجنڈا نبٹانے کے بعد کمرے سے تمام سرکاری افسروں اور غیر متعلقہ افراد کو باہر جانے کے لئے کہا گیا اور بعدازاں اجلاس کی کارروائی ’’ان کیمرہ‘‘ ہوئی۔ ذرائع نے بتایا وزیر خزانہ نے اپوزیشن ارکان کو حکومتی تجویز کے بارے میں اعتماد میں لیا اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کی وہ حکومت کے مجوزہ جوڈیشل کمشن کو مان لیں۔ وزیر خزانہ کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے ساتھ تنہائی میں بات چیت کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ ذرائع نے بتایا اپوزیشن جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنانے کا مطالبہ دہرایا، بعدازاں لاء ریفارمز کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں اپوزیشن ارکان بھی موجود تھے۔ کمیٹی کے اجلاس میں بھی اپوزیشن سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم جوڈیشل کمشن کی سربراہی کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں تعطل موجود ہے۔

ای پیپر-دی نیشن