یہ پولیس کو بدنام کرنے کا وقت نہیں… اور سیاستدان
میں نے چھوٹو ڈاکو کے لئے کالم لکھا تو ایک دوست سے گفتگو ہوئی۔ اس نے کہا اب پاکستان میں چھوٹے چھوٹے لوگ بڑے بڑے لوگ بن گئے ہیں اس میں میڈیا والے بھی آتے ہیں جن کی رپورٹنگ بہت بڑی نالائقی اور نااہلی کی علامت ہے۔ کوئی میڈیا والا اس جزیرے کی پوری صورتحال سے باخبر نہیں ہے جہاں چھوٹو گینگ موجود ہے۔ ہمارے ہاں اب باخبر لوگ اہل خیر نہیں ہیں۔
پولیس نے بھی پوری طرح جان لڑائی ہے اس حوالے سے پہلے کئی واقعات میں پولیس کو بڑی بڑی کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ ہم ان کا ذکر نہیں کرتے۔ انہیں شاباش نہیں دیتے مگر منفی باتوں کا پروپیگنڈا بہت کرتے ہیں۔ چھوٹو گینگ کے ساتھ مقابلے میں بھی کئی پولیس والے شہید ہوئے۔ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر مقابلے پر اترے ہوں گے۔ کئی پولیس والے یرغمالی بنے تو وہ آگے بہت آگے تک گئے ہوں گے۔ انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہوں گے؟ ایک نیازی کے عالمی سازش کے تحت ہتھیار ڈالنے کی مجبوری کی وجہ سے ہم نیازی ابھی تک شرمسار کئے جاتے ہیں ورنہ نیازیوں نے اور پٹھانوں نے بڑی دلیریاں دکھائی ہیں اور قربانیاں دی ہیں۔
اب بھی پولیس فوج کے ساتھ ساتھ قربانیاں دے رہی ہے۔ پولیس میں اچھے لوگ ہیں اچھے لوگ نہیں بھی ہیں۔ یہ ہر ادارے میں ہوتا ہے۔ مجھے ایک ریٹائرڈ ڈی آئی جی نے کہا تھا کہ پولیس والوں نے جتنی قربانیاں دی ہیں کوئی دوسرا ان کا تصور نہیں کر سکتا۔
ہم کسی جگہ چھوٹے بچے کو کام کرتے دیکھتے ہیں تو اسے بڑی بدتمیزی سے اوئے چھوٹے کہہ کر پکارتے ہیں۔ اب کوئی ہے جو چھوٹو کو بدتمیزی سے بلائے۔ مگر پولیس اور فوج چھوٹو سے نبرد آزما ہے۔ کبھی رحیم یار خاں جائو اور دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے فوج اور پولیس کی قربانیاں بھی دیکھو۔
میں نے آئی جی پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا سے رابطے کی کوشش کی تو مجھے پنجاب پولیس کی افسر تعلقات عامہ نبیلہ غضنفر نے بتایا کہ وہ کئی دنوں سے ڈیرہ غازی اور رحیم یار خان گئے ہوئے ہیں کہ اپنے لوگوں کا حوصلہ بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر کارروائی میں حصہ لیں۔ انہوں نے پچھلے دنوں چیدہ چیدہ صحافیوں کے ساتھ گپ شپ کی تھی۔ ان کی پروفیشنل شخصیت محکمانہ معلومات اور دردمندانہ محسوسات سے ہم متاثر ہوئے۔ انہوں نے بڑے سخت سوالوں کے بھی دردمندی سے جواب دئیے اور روایتی معنوں میں دوستوں کی طرح سب سے گھل مل گئے۔ ان کی یہ بات مجھے اچھی لگی کہ وہ پولیس کی وردی میں نہ تھے۔ سادہ کپڑوں میں وہ بہت باوقار اور بااعتبار لگ رہے تھے۔ بالکل ہمارے جیسے۔
وہاں سی سی پی او لاہور امین وینس نہیں تھے مگر ان کا ذکر خیر بہت اچھی طرح ہوا اور ان کی صلاحیتوں اور کوششوں کو بڑا سراہا گیا۔ وہ عوام اور پولیس میں اچھے رابطوں کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ یہ خواہش آئی جی مشتاق سکھیرا کی بھی ہے۔ وہاں نبیلہ غضنفر اور نایاب حیدر دونوں ہمارے نمائندے ہیں۔ وہ صحافت اور پولیس کے درمیان اچھے تعلقات کے لئے سرگرم رہتے ہیں۔
اگر آغاز ہی میں چھوٹو گینگ نہ بننے دیا جاتا تو بہتر تھا۔ یہ وقت کسی انکوائری کا نہیں ہے یہ بات چھوٹو کو برباد کرنے کی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے زندہ گرفتار کیا جائے اور پھر تحقیقات ہوں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی پانی سامنے نکل آئے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ سفید رنگ کے پانی کو دودھ کہا جاتا ہے اور صاف پانی پینے کے لئے پاکستان کے اکثر علاقوں بلکہ سب علاقوں میں میسر ہی نہیں ہے۔ چھوٹو کے سرپرست سہولت کار وڈیرے اور سیاستدان ہیں۔ ان کا انجام چھوٹو سے مختلف نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں عبرت کا نشان بنانا چاہئے۔
آخر یہ کیوں ہوتا ہے کہ ایک ریاست میں کوئی آدمی اپنی ریاست بنا لیتا ہے اور پھر کچھ عرصے کے لئے ناقابل تسخیر بھی بن جاتا ہے۔ اس کے لئے اتنی ہی کوشش کرنا پڑ جاتی ہے جو دشمن کو شکست دینے کے لئے کرنا ہوتی ہے ایسے لوگوں کے سر پر بہت مددگار اور سہولت کار علاقے کے سیاستدان ہوتے ہیں۔ یہ کیسے سیاستدان ہیں؟ کیا یہ محب وطن نہیں کیا انہیں قومی رہنما کہا جا سکتا ہے۔ یہ بڑے دہشت گرد ہیں۔ اسے ترقی پذیر کہنا بھی بہت بڑا جھوٹ ہے۔ ہم جھوٹ بہت بولتے ہیں۔
چھوٹو کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے مگر ہمارے لوگ طرح طرح کے تبصرے کر رہے ہیں۔ مشورے دے رہے ہیں۔ پولیس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ انہیں مطعون کر رہے ہیں۔ انہیں نااہل کہہ رہے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ تم کیا کر رہے ہو۔ تم نے اس ملک کو ایک شاندار عزت دار ملک بنانے کے لئے کیا کیا ہے یہ بھی تو کوئی سوچے کہ ہمارے ملک میں ڈاکو بڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمارے اکثر سیاستدان حکمران بھی ڈاکو اور لٹیرے ہیں۔ ہر طرف سے آواز آتی ہے کہ یہ لوگ اس ملک کو لوٹ کے کھا گئے ہیں۔ ان کے بزنس بیرون ملک ہیں ان کا بے تحاشا سرمایہ باہر ہے۔ بڑی دردمندی کے ساتھ سابق ایڈیشنل آئی جی دانشور ذوالفقار چیمہ نے میرے ساتھ بات کی کہ یہ وقت پولیس کو بدنام کرنے کا نہیں ہے۔ ہم سب مل کر اپنی پولیس کو تسلی دیں۔ ان کی قربانیوں کا اعتراف کریں۔ اختلاف کرنے کا حق اس کو ہے جو اعتراف کرنا جانتا ہو۔
میں یہ بات اکثر کرتا ہوں اور بڑے فخر سے کرتا ہوں کہ میرے والد پولیس میں انسپکٹر تھے انہوں نے جس ذمہ داری سے اپنا فرض ادا کیا میرے دل میں ان کی عزت ولی اللہ سے کم نہیں ہے یہ نہیں کہ وہ میرے والد تھے۔ وہ ایک اچھے سچے پولیس افسر تھے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہ ایک مقتول نوجوان کی والدہ کے پاس زمین پر بیٹھ کر روتے رہے اور اس وقت تک چین سے نہ بٹھے جب تک ظالم امیر کبیر وڈیرے قاتل کو پھانسی کے تختے تک نہ پہنچا دیا دکھیاری ماں ہمارے گھر آئی اور میرے ابا سے لپٹ کر روتی رہی کبھی ہنستی رہی۔ بہت سے پولیس افسر ہیں جنہوں نے ظالموں قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے اب تو قوم کو ایک چھوٹو ڈاکو سے واسطہ پڑا ہے۔ اس ملک میں بڑے بڑے ڈاکو بھی موجود ہیں۔ وہ اقتدار کے ایوانوں اور اسمبلیوں میں بھی بیٹھے ہیں۔ ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔ پولیس والوں کو بھی جینوئن اور انصاف پسند پولیس والا بن جانا چاہئے۔