فضل الرحمن، حافظ سعید، سمیع الحق کی عدم شرکت، دینی جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس کی اہمیت کم ہوگئی
لاہور (سید عدنان فاروق) دینی جماعتوں اور مدارس دینیہ کے قائدین کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں فضل الرحمن، حافظ سعید، مولانا سمیع الحق کی عدم شرکت نے رہبر کمیٹی کے اجلاس کی اہمیت کو کم کردیا۔ منصورہ میں دینی جماعتوں کی نظام مصطفی کانفرنس میں مجوزہ نظام مصطفی تحریک صرف اعلان ہی ثابت ہوئی۔ تحریک کے خدوخال تو دور کی بات اجلاس میں صرف بڑے شہروں میں کانفرنسیں کرانے پر ہی اکتفا کیا گیا۔ سربراہ اسلامی تحریک علامہ سید ساجد علی نقوی کی صدارت میں اجلاس میں امیر جماعتِ اسلامی سینیٹر سراج الحق، لیاقت بلوچ، امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث سینیٹر پروفیسر ساجد میر، پیر عبدالرحیم نقشبندی، پیر اعجاز ہاشمی، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر، حافظ عاکف سعید، پیر ناصر جمیل ہاشمی، جے یو آئی کے مولانا فضل عالی حقانی اور دیگر قائدین نے شرکت کی۔ سٹیئرنگ کمیٹی کو بڑے شہروں میں کانفرنسز کے شیڈول کی بجائے صرف تاریخیں طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے نسواں بل پر علماء سے مذاکرات کے آغاز اور متنازعہ شقوں کی واپسی کی یقین دہانی کے بعد دینی جماعتوں کی مجوزہ نظام مصطفی تحریک شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ گئی۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس کے ایجنڈا میں نسواں بل کوشامل ہی نہیں کیا گیا۔جماعت اسلامی کے پریس ریلیز میں رہنمائوں نے جو باتیں کی ہیں وہ روزکے بیانات کا تسلسل ہے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے قائدین کے درمیان حکومت کیخلاف تحریک کے خدوخال اور بنیادی محور پر مختلف آراء سامنے آرہی ہیں۔ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ کرپشن فری معاشرہ کا سلوگن بھی اس اجتماعی تحریک کا حصہ بن جائے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جے یو پی نسواں بل کو یکسر مسترد کرکے نیا بل لانے کی بات کر رہی ہے، اسی طرح جماعت اسلامی بھی حکومتی بل کو یکسر مسترد کرنے کے حق میں ہے جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نسواں بل کی قرآن وسنت سے منافی شقوںکے اخراج اور بل کی اصلاح کی حامی ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روز ماڈل ٹائون میں حکومتی اور دینی جماعتوں کی کمیٹی کے پہلے مشترکہ اجلاس میں بھی جے یوآئی اور جماعت اسلا می کے ارکان نے بل پر بات چیت کی بجائے اسے یکسر مسترد کرنے کی بات کی جبکہ علماء کمیٹی کے سربراہ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے انکی حمایت نہیں کی اور اس بات پر زور دیا کہ ہمیں قرآن وسنت کے منافی شقوں کے اخراج اور بل کی اصلاح کی بات کرنی چاہیے تاکہ عوام میں یہ تاثر نہ جائے کہ دینی جماعتیں اختلاف برائے اختلاف کررہی ہیں اور انکے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔