چیئرمین سینٹ کی میز پر علامتی گرز رکھ دیا گیا‘ ارکان کا خیر مقدم
ایوان بالا میں اس وقت ایک نئی روایت کا آغاز ہوا جب سینیٹ کی ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی منظوری کے بعد چیئرمین کی میز پر علامتی گرز رکھا گیا، یہ علامتی گرز دنیا بھر کی تمام پارلیمنٹس کے چیئرمین /سپیکر کی میز پر رکھا جاتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ چیئرمین یا سپیکر ایوان بالا یا ایوان زیریں کا رکھوالا ہوتاہے۔ اس گرز پر سینیٹ کے تمام فیڈریٹنگ وینٹس (صوبائی اسمبلیوں) کے مونوگرام اور سینیٹ کا اپنا مونوگرام کندہ ہے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی دنیا بھر میں رائج پارلیمانی روایات کا نہ صرف احترام کرنا چاہیئے بلکہ ان کی تقلید بھی کرنی چاہیئے۔ یہ علامتی گرز اس وقت تک چیئرمین یا سپیکر کی میز پر موجود رہے گا جب تک ایوان کی کاروائی جاری رہے گی۔ اجلاس کے آغاز میںسارجنٹ ایٹ آرمز چیئرمین یا سپیکر کی آمد سے پہلے یہ گرز ایوان میں آکر میز پر رکھا کریں گے اور ایوان کی کارروائی معطل ہونے یا ملتوی ہونے کی صورت میں اسی احترام کے ساتھ چیئرمین یا سپیکر کے ایوان سے رخصت ہونے سے قبل اپنے دائیں کندھے سے لگا کر ایوان سے لے جایا کریں گے۔ معزز ارکان نے ڈیسک بجا کر ایوان بالا میں اس نئی روایت کا خیر مقدم کیا۔ بدھ کو ایوان بالا کا اجلاس قریباً پانچ گھنٹے جاری رہا۔ صدارت چیئرمین میاں رضا ربانی نے کی اس دوران سینیٹر اعظم سواتی، محسن عزیز ، سحر کامران، حافظ عبداللہ اور فرحت اللہ بابر کی بحث کیلئے منظور شدہ قرار داد پر بند کمرے (ان کیمرہ) اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس سے تحقیقات سے متعلق ایوان کو بریفنگ دی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے اپنی تقریر کی تو نماز مغرب کا وقفہ ہو گیا ٹھیک گیارہ منٹ کے بعد جب چیئرمین سینیٹ دوبارہ ایوان میں آئے تو سینیٹر اعظم سواتی کے علاوہ صرف دو اور سینیٹرز لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور محسن لغاری ایوان میں موجود تھے۔ تاہم کچھ دیر میں وہ سینیٹرز بھی ایوان میں آگئے جنہوں نے بحث میں حصہ لینا تھا۔اس بحث میں سینیٹرز سراج الحق، الیاس بولر، عثمان ابراہیم، جنرل (ر) عبدالقیوم، خالدہ پروین،اعظم سواتی، محسن لغاری، دائود خان اچکزئی، ایم حمزہ، بیگم نجمہ حمید،شاہی سیداعجاز دھامرہ سیف اللہ مگسی اور شبلی فراز نے حصہ لیا۔ بیشتر سینیٹرز نے پاناما لیکس کو ٹرننگ پوائنٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ صرف وزیر اعظم یا ان کے خاندان سے متعلق ہی نہیں تمام 220پاکستانیوں کے خلاف انکوائری کمیشن میں تحقیقات ہونی چاہیئے۔ شاہی سید نے یہاں تک کہہ دیا کہ سیاسدانوں کے بعد جرنیلوں، اور پھر جرنلسٹوں کے اثاثہ جات کی تحقیقات ہونی چاہیئے تک اس ملک سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ ہو جو ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔اے این پی کے سینیٹر الیاس بلور نے ذوالفقار علی بھٹو دور کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو دور میں ارکان پارلیمنٹ کو پلاٹ دیئے گئے مگر وزیر اعظم بھٹو نے خود پلاٹ نہیں لیا۔ ولی خان کو جب مارگلہ روڈ پر دو ہزار گز کا پلاٹ دینے لگے تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس پلاٹ کا کیا کرنا میں تو غریب آدمی ہوں۔ جس پر بھٹو شہید نے دو پلاٹ کے کاغذات بھجوا دیئے کہ ایک بیچ کر دوسرے پر گھر بنا لیں مگر ولی خان نے شکریہ کے ساتھ یہ کاغز بھی واپس بھجوا دیئے اور کہا کہ ولی کو ولی ہی رہنے دیں۔ ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس دور کے سیاستدانوں کا ایک کردار تھا جسے ضیائالحق نے خراب کر دیا۔ سینیٹر جنرل(ر) عبدالقیوم نے پانامہ لیکس کو ایک بہات بڑا گیم پلان قرا ردیا اور اس عالمی سازش کا مقابلہ کر نا ہوگا۔ قریباً قریباً ہر سینیٹر نے اس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے یہ پیشکش کی کہ احتساب کا عمل بلا امتیاز اور خود اس رکن سے شروع کیا جائے۔ بحث جاری تھی کہ چیئرمین سینٹ نے اجلاس کی کارروائی جمعرات کو تین بجے سہ پہر تک ملتوی کر دیا۔