نواز شریف ،چوہدری نثار علی خان اور ’’لندن پلان‘‘
وزیر اعظم محمد نواز شریف طبی معائنہ کرانے لندن کیا گئے ان کے استعفے کی افواہیں گردش کرنے لگیں خواہشات پر ’’خبریں‘‘ بنانے والے اینکر پرسنزکی ’’بٹالین‘‘ نے تو ان کے متوقع ’’سیاسی جانشین‘‘ بارے میں قیاس آرائیاں شروع کر دیں۔ ہر کوئی دور کی کوڑی لا رہا تھا کوئی ان کی ہونہار صاحبزادی مریم نواز کواگلا وزیر اعظم بنا رہاتھااور کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے سر پر وزارت عظمیٰ کا’’ تاج ‘‘سجا رہا تھا کوئی کہہ رہا تھا’’ جی کا جانا ٹھہر گیا ہے ‘‘ اب وزیر اعظم محمد نواز شریف پاکستان واپس نہیں آئیں گے ایک نے تو اپنی لاعلمی کی انتہا کردی اور کہا کہ ان کو کہا گیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے ملک سے باہر چلے جائیں لیکن اس نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ ان کو یہ مشورہ کن ’’ان دیکھی قوتوں ‘‘ نے دیا ہے ۔ راولپنڈی کا مشہور سیاسی جوتشی جو ہر تین ماہ کی سیاسی صورت حال بارے میںپیشگوئیاں کرنے کی شہرت رکھتا ہے نے بھی چپ سادھ رکھی ہے۔ ’’چڑیا‘‘ والے سیاسی تجزیہ کار کو بھی کچھ سجائی نہیں دیتا تھا کہ آنے والے دنوں میں کیا سیاسی نقشہ ہو گا ، کسی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ نواز شریف کی کب وطن واپسی ہو گی؟اچانک وزیر اعظم کے ترجمان نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے پروگرام کا اعلان کر کے قیاس آرائیاں کرنے والوں خاموش کر دیا۔اگرچہ میں اس وقت امریکہ میں ہوں تاہم میرا پاکستان مسلم لیگ(ن) برطانیہ کے سینئرنائب صدر ناصر بٹ کی وساطت سے وزیر اعظم سے بالواسطہ رابطہ رہا ان کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ قائم رہا وہ ہر روز میاں نواز شریف سے ملاقات کے لئے ان کی رہائش گاہ پر جاتے اور لمحہ بہ لمحہ کی صورت حال سے آگاہ رکھتے۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم رواں ہفتے کے دوران پاکستان واپس جا رہے ہیں اس سلسلے میں جلد سرپرائز دیا جائے گا۔ ناصر بٹ کا شمار برطانیہ میں مسلم لیگ(ن) کے متحرک کارکنوں میں ہوتاہے جنہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے انہیں یہ کہہ کر کہ’’ ہمیں تحریک انصاف کے کارکنوں جیسا طرز عمل اختیار نہیںکرنا چاہیے‘‘ لندن میں جمائمہ کی رہائش گاہ کے باہر مظاہرہ کرنے روک دیا تھالیکن ناصر بٹ اور زبیر گل کے اصرار پر ان کو مظاہرے کی اجازت مل گئی مسلم لیگ(ن) برطانیہ کے جنرل سیکریٹری راجہ جاوید اقبال جنہوں نے پچھلے ایک ماہ سے پاکستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں مظاہرے میں شرکت نہ کر سکے ۔ ناصر بٹ جو وزیر اعظم محمد نواز شریف کی برطانیہ آمد وروانگی کے وقت ہر وقت ان کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہتے ہیں نے بتایا کہ ’’ وزیر اعظم محمد نواز شریف کا مورال خاصا بلند تھا تاہم میڈیکل چیک اپ کے بعد ان کی طبیعت اور بھی کھل اٹھی وہ چرچل ہوٹل میں اپنے اوپننگ بیٹسمین چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کے لئے گئے تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں جہاں ملکی سیاسی صورت حال کا جائزہ لیا گیا وہاں انہوں نے ’’پانامہ پیپرز لیکس‘‘ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے نکلنے کے لئے حکمت عملی پر غور کیا۔ سیاسی معاملات میں وزیر اعظم محمد نواز شریف اپنے ’’اوپننگ بیٹسمین ‘‘کی سیاسی ذہانت کے معترف ہیں ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف پاکستان کی سیاست میں پچھلے 35سال سے مختلف حیثیتوں سے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں انہوں نے صوبائی وزیر سے وزارت عظمیٰ کی منصب تک پہنچنے میں کئی دریا عبور کئے دنیائے سیاست میں بہت کم ایسا ہوا کہ سیاست میں عروج کے بعد کسی کو زوال آیا ہو اس کے بعد پھر اسے عروج ملا ہو ۔ یہ اعزاز صرف نواز شریف کو حاصل ہوا ہے۔ اکتوبر2013ء کوسملی ڈیم میں وزیر اعظم محمد نواز شریف ، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان خفیہ اجلاس ہوا جس میں حکومت کی 5ماہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اس میٹنگ میں چوہدری نثار علی خان نے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا کہ’’ ذوالفقار علی بھٹو کے والد شاہ نواز بھٹو وزیر اعظم تھے جب کہ ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کوبھی دو بار مسند وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے اس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کو ایوان صدر تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی لیکن آج بھٹو خاندان کہاں کھڑا ہے ؟ جناب وزیر اعظم! آپ کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں تھا۔ آپ پہلی بار صوبائی وزیر بنے تو پھر وزارت اعلیٰ کے منصب تک پہنچے دوبار وزیر اعظم بننے کے بعد جلاوطن کر دئیے گئے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو تیسری بار یہ منصب عطا کیا یہ سب کچھ اللہ کی دین ہے اس کا مطلب یہ ہے اللہ آپ سے بہت بڑا کام کروانا چاہتا ہے‘‘ ان کا نواز شریف سے ایک ہی تقاضا رہا انہوںنے عوام سے جو وعدے کر رکھے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیں۔ ایک سال مکمل ہونے پر حکومت کی اطمینان بخش کارکردگی نہ ہونے پر چوہدری نثار علی خان نے وزارت سے استعفا دے دیا جسے وزیر اعظم نے مسترد کر دیا۔ جب کبھی وزیر اعظم محمد نواز شریف کو سیاسی مخالفین نے گھیرے میں لے لیاتووہ ان کے سامنے شمشیر برہنہ کھڑے ہو گئے۔ وہ نواز شریف کے سامنے خوشامدانہ گفتگو نہیں کرتے ان کو ہمیشہ بری خبر سناتے شاید ان کی یہ عادت ہی ان کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کا باعث بنتی رہی ہے۔ وزیر اعظم محمدنواز شریف کے لندن جانے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی ان کے پیچھے پیچھے لندن پہنچ گئے اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کے ایک پرواز میں سوار ہونے سے ڈائیلاگ کا موقع مل گیا چوہدری نثار علی خان نے عمران خان کو باور کرا یا کہ’’ ایجی ٹیشن کے ذریعے نواز شریف حکومت گرانے نہیں دی جائے گی اگر وہ جلسہ جلوس کی سیاست کرنا چاہتے ہیں تو کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی‘‘۔ اسی پرواز میں چوہدری نثار علی خان نے انہیں ریڈ زون کی طرف نہ جانے کی یقین دہانی پر ایف نائن پارک اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دے دی۔ چونکہ اسی روزچوہدری نثار علی خان لندن سے جرمنی چلے گئے لہٰذا ان کی واپسی پر ہی وزیر اعظم نے ان سے ملاقات کی اس ملاقات میں ’’لندن پلان ‘‘ بنا وہ یہ تھا کہ’’ وزیراعظم محمد نواز شریف فوری طور پر وطن واپس جا کر جہاں قوم کو سیاسی محاذ پر اپنی موجودگی کا احساس دلائیں گے وہاں وہ جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں سے ڈائیلاگ کریں گے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے حکومت کو جوڈیشل کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیشن قائم کرنے کی راہ دکھا دی ہے اور چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے بھی بوجوہ پارلیمانی کمیشن کا سربراہ بننے سے معذرت کر لی ہے تاہم اس بات کا قومی امکان ہے پارلیمانی جماعتوں پرمشتمل کمیشن کے قیام پر اتفاق رائے پیدا ہو جائے۔ سر دست عمران خان پارلیمانی کمیشن کے قیام کی بھی مخالفت کر رہے ہیں پارلیمانی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس اور ارکان کی نامزدگی پر تنازعہ کھڑا ہو سکتا ہے چوہدری نثار علی خان بھی ’’امریکہ یاترا ‘‘کے بعد پاکستان واپس پہنچنے والے ہوں گے یا جب تک یہ سطور شائع ہوں گی وہ پاکستان پہنچ چکے ہوں گے۔
وزیر اعظم محمد نواز شریف بھی چوہدری نثار علی خان کی واپسی تک کوئی بڑا سیاسی فیصلہ نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کی عدم موجودگی میں مریم نواز نے سیاسی افق پر اپنے وجود کا احساس دلا دیا ہے تاہم الیکٹرانک میڈیا پر کچھ افلاطونوں نے تہمینہ درانی کے ٹویٹ کو بنیاد بنا کر شریف خاندان میں اختلافات تلاش کرنے کی کوشش کی جس پر مجبوراً وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو تردید کرنا پڑی۔ پچھلے تین سال میں دھرنا وزیر اعظم محمد نواز شریف کے لئے ایک مشکل صورت حال تھی جس سے وہ نکلنے میں کامیاب ہو گئے پانامہ پیپرز لیکس بظاہر بڑا ایشو نہیں لیکن اپوزیشن کو حکومت کو دبائو میں لانے کا موقع مل گیا ہے اپوزیشن حکومت گرا تو نہیں سکتی لیکن دبائو میں لاکر اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی کوشش کر سکتی ہے بظاہرعمران خان سیاسی طور پر تنہا نظر آتے ہیںلیکن انہوں نے پوری اپوزیشن کو اپنے پیچھے لگا رکھا ہے اور یہ تاثر قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیںکہ پوری اپوزیشن ان کے ایجنڈے کو فالو کر رہی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے حکومت کے خلاف ’’ہارڈ لائن‘‘ اختیار کر نیکی وجہ سے دیگر جماعتیں بھی’’ ہارڈ لائن‘‘ اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت وزیر اعظم محمد نواز شریف کے لئے زیادہ مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتی لیکن پاکستان میں پارٹی کے کچھ رہنما اپنے ذاتی ایشوز کی وجہ سے نواز شریف حکومت کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے پارک لین میں اپنی رہائش گاہ پر قیام کے دوران شور مچ گیا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نواز شریف کی رہائش گاہ کی پچھلی گلی میں منتقل ہو گئے ہیں لیکن دونوں کے درمیان کوئی ملاقات نہ ہوئی البتہ ٹیلی فون پر دونوں کے درمیان صحت یابی کے لئے نیک خواہشات کے اظہار تک ہی بات ہوئی۔ اینکر پرسنز ممکنہ ملاقات کو’’ لندن پلان‘‘ کا عنوان نہ دے سکے۔ عمران خان نے فنڈ ریزنگ کے لئے لندن اور بر منگھم میں بڑے جلسوں سے خطاب تو کیالیکن اپنے بچوں کی ’’نانی‘‘ کی رہائش گاہ پر جہاں انہوں نے قیام کر رکھا تھا ’’گو عمران گو‘‘ کے نعرے بھی سننا پڑے۔ دراصل ان کو یہ پیغام دے گیا کہ ’’رائیونڈ‘‘ کا رخ کیا تومسلم لیگی کارکن ’’بنی گالہ‘‘ بھی پہنچ سکتے ہیں۔