اوباما جرمنی پہنچ گئے: دورے، ممکنہ تجارتی معاہدے کے خلاف مظاہرہ
برلن (اے پی پی+ بی بی سی + این این آئی +آن لائن) امریکی صدر بارک اوباما جرمنی کے شہر ہینوور پہنچے اس موقع پر ہزاروں جرمن شہریوں نے اوباما کے دورے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ہزاروں ہینوور سٹی کی سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے شدید احتجاج کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تقریبا بیس ہزار لوگ مظاہرے میں شریک تھے تاہم آزاد ذرائع نے تعداد کہیں زیادہ بتائی ہے۔امریکی صدر بارک اوباما صنعتی نمائش کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی غرض سے اتوار کے روز جرمنی کے شہر ہینوور پہنچے۔ مظاہرین، امریکہ اور یورپ کے درمیان آزاد تجارت کے معاہدے کے خلاف بھی نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین نے اپنے ہاتھوں میں ایسے بینر اور پلے کارڈ بھی اٹھار رکھے تھے جن پر ’’ٹی ٹی آئی پی ‘‘نامی آزاد تجارتی معاہدے کے خلاف نعرے درج تھے۔ مظاہرین، آزاد تجارت کے اس معاہدے پر عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے ان کی پالیسی اور اقدامات انتہائی جرات مندانہ ہیں۔ میرے خیال میں تارکین وطن کے بحران کے حوالے سے چانسلر کا موقف دیگر کئی جرمن شہریوں کی طرح دلیرانہ ہے۔ جرمن چانسلر نے انتہائی خراب حالات سے فرار ہونے والوں کی مدد کے لیے عالمی سطح پر ذمہ داریوں کا احساس دلانے میں مدد فراہم کی ۔ ہم دیگر انسانوں کے لیے اس وقت اپنے دروازے بند نہیں کر سکتے جب انہیں اتنی سخت تکالیف کا سامنا ہو۔ ملاقات اور مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا۔ یہ ہماری روایات و معیار کے خلاف ہو گا۔ اوباما کا کہنا تھا جرمنی امریکہ کے قریب ترین اور مضبوط ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے جرمنی کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور دنیا بھر کی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ شام میں فریقین مذاکرات کریں جنگ بندی برقرار رکھی جائے ۔ سیف زون کا قیام مشکل ہے ۔ جرمنی اور امریکہ کا پولیس یونین نے اتفاق کیا ہے متنازعہ ٹرانس ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ معاہدے کیلئے آگے بڑھتے رہنا چاہیے ۔ نیٹو کے تمام ارکان دفاع اخراجات پر نظر رکھیں یہ بڑھ نہ پائیں ۔ روس سے اس وقت تک پابندیاں نہیں ہٹیں گی جب تک مشرقی یوکرائن کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ مرکل نے کہا جنیوا مذاکرات میں امداد بحالی کیلئے حل ڈھونڈنے چاہیے ۔ امریکی صدر نے بالخصوص انسداد دہشت گردی، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حصول اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمنٹے کے لیے پیرس معاہدے کو ممکن بنانے کے سلسلے میں انجیلا مرکل کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی۔ اپنے تحریری جوابات میں اوباما کا مزید کہنا تھا کہ یوکرائنی تنازعے میں یورپی اتحاد برقرار رکھنے میں میرکل کی با اثر قیادت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اوباما نے کہا، وہ ایک پرکشش آواز ہیں اور آزادی، برابری اور انسانی حقوق کے لیے لڑتی ہیں۔ میں ان کے ساتھ پارٹنرشپ کی قدر کرتا ہوں اور اس پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ وہ میری دوست ہیں۔اوباما نے شام میں زمینی افواج کی تعیناتی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف فوجی کارروائی سے ملک کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔انھوں نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کے لیے زمینی افواج کا روانہ کیا جانا بڑی غلطی ہوگی۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے آخری نو مہینوں کے دور صدرات میں شدت پسند تنظیم داعش کا قلع قمع نہیں ہو سکے گا۔تاہم انھوں نے کہا: ’ہم لوگ رفتہ رفتہ ایسے ماحول کو کم کرتے جائیں گے جس میں وہ سرگرم ہیں۔‘تین دن کے برطانوی دورے میں انھوں نے کہا کہ شام کا مسئلہ ’دل سوز اور انتہائی پیچیدہ ہے۔‘ صدر اوباما نے شام کے حالات کو دلدوز قرار دیا۔ ’میرے خیال میں اس کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔شام کے طویل مسئلے کا واحد حل فوج نہیں ہے اور ہماری جانب سے زمینی فوج کی تعیناتی تو بالکل نہیں ہے اور نہ ہم یہ کرنے جا رہے ہیں۔‘ ’امریکہ کی قیادت والے اتحاد کی جانب سے دولت اسلامیہ کے خلاف رقہ جیسی جگہوں پر حملے جاری رہیں گے اور ملک کے ان حصوں میں انھیں محدود کر دیا جائے گا اور ان حصوں سے رابطے منقطع کر دیے جائیں گے جہاں سے وہ یورپ میں غیر ملکی جنگجو بھیجتے ہیں۔‘ ’بین الاقوامی برادری کو روس، ایران اور معتدل حزب اختلاف سمیت تمام فریقین پر دباؤ ڈالتے رہنا ہے کہ ساتھ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کریں۔‘انھوں نے کہا کہ ’یہ مشکل امر ہے۔‘انھوں نے ایسے ممالک کی تنقید کی جن کی پارلیمان نے شام میں کی جانے والی کارروائی کی توثیق نہیں کی ہے اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ امریکہ کچھ کرے۔انھوں نے کہا: ’آپ دونوں طرف سے سرخرو نہیں ہو سکتے۔‘انھوں نے کہا کہ ’شام کا مسئلہ قومی حدود اور مفادات سے بالاتر ہے اور اس کا حل بھی ملکی اور قومی حدود سے بلند ہے۔‘چین شمالی کوریا کے خطرے کو سنجیدگی سے دبائو بڑھائے۔ اوباما نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بحر الکال کے دونوں اطراف تجارت اور سرمایہ کاری کے مجوزہ معاہدے ( ٹی ٹی آئی پی ) پر آگے بڑھیں کیونکہ اس سے امریکہ اور یورپی یونین کے مابین تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے ۔ برطانیہ کے بعد اتوار کی شام جرمنی پہنچنے کے بعد صدر براک اوباما نے جرمنی کی چانسلر انگیلا میر کل سے ملاقات کی ہے ۔ اس ملاقات کے بعد دونوں رہنمائوں نے اخباری کانفرنس سے خطاب کیا ۔ اوباما کا کہنا تھا کہ ٹرانس ایٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنر شپ ( ٹی ٹی آئی پی ) سے ملازمتوں میں بہتر ی آئے گی اور معاشی ترقی کو فروغ ملے گا ۔ ملاقات کے بعد اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک ااوباما نے شام میں بڑھتی ہوئے تشدد پر فکر مندی کا اظہار بھی کیا ۔ اوباما نے شام میں زمینی افواج کی تعیناتی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے بحران کا حل فوجی کاروائی نہیں بلکہ بات چیت ہے ۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ شام کا مسئلہ دل سوز اور پیچیدہ نوعیت کا ہے ۔ میرا خیال نہیں کہ شاملی بحران کا کوئی آسان حل ہے ۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق اگر امریکہ اور برطانیہ اسد کی حکومت ختم کرنے کے لیے شام میں زمینی دستے روانہ کریں گے تو ایک بڑی غلطی ہوگی ۔ بین الاقوامی برادری کو روس ، ایران اور معتدل حزب اختلاف سمیت تمام فریقین پر دبائو ڈالتے رہنا ہے کہ سب مل بیٹھ کر مسئلے برطانیہ سے پہلے صدر براک اوباما نے سعودی عرب کا دو روزہ دورہ کیا ۔ لیبیا کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لیبیا میں مثالی ماحول قائم کرنے کی بجائے بنیادی سہولیات پر توجہ دینی چاہیے ۔ ہم ان کی بارڈر سیکیورٹی اور پولیس کی تربیت کا کام شروع کر سکتے ہیں ۔