اتنا شور کیوں؟
کاروباری سرگرمیاں بڑھانے اور سرمایہ کاری لانے کیلئے ملک میں امن اور یکجہتی کے ماحول کی اشد ضرورت ہے۔ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود بعض سیاست دان الیکٹرانک میڈیا پر اور جلسے جلوسوں میں تعمیری گفتگو کرنے اور سازگار ماحول بنانے کی بجائے وزیراعظم پاکستان کی ذات اور انکے خاندان پر کیچڑ اچھالتے ہیں تاکہ بیرون ملک خدانخواستہ منفی پیغام پہنچے۔ پاکستان کو موزوں ترین ملک قرار دینے والے سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ جائیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اس سلسلے میں تمام کاوشیں اکارت جائیں۔ بالعموم ہر شام ٹی وی چینلوں پر سیاستدان، دانشور اور اینکر پرسن دنیا جہاں کی کرپشن اور بدعنوانیوں کو پاکستان میں لانے اور اسے وزیراعظم کی ذات اور انکے خاندان پر چسپاں کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس دوران کاروباری لوگ اپنی کارباری سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں اور عام آدمی روزی روٹی کے فکر میں سرگرداں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح چند ماہ پہلے بعض سیاست دانوں نے اسلام آباد دھرنے کے نام دھماچوکڑی مچائی تھی۔ ڈی چوک پر دن بھر سکون رہتا لیکن شام ہوتے ہی سیاست دان کنٹینر پڑ چڑھ جاتے اور نیچے زمین پر بیٹھے حاضرین سے دو تین گھنٹے مخاطب رہتے اس وقت بھی حاضرین یا عوام نے صاحب تقریر کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اگرانہوں نے ایسی تقریروں کو سنجیدگی سے لیا ہوتا تو صاحب تقریر کی بات مانتے ہوئے بجلی کے بل ادا نہ کرتے یا بیرون ملک سے پاکستانیوں نے اپنے روپے قانونی ذرائع سے نہ بھیجے ہوتے۔ اتنا ضرورہوا کہ 46 ارب ڈالر کی خارجہ سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے چین کی قیادت نے انہیں دنوں اسلام آباد پہنچنا تھا۔ اسلام آباد کے سنٹرل مقام پر برپا طوفان بدتمیزی کے پیش نظر دورہ چند ماہ کیلئے موخر کرنا پڑا۔
ایک بار شور اٹھا ہے اس لئے نہیں کہ بدعنوانیوں کا خاتمہ کیا جائے اس لئے نہیں کہ سمگلنگ کی وجہ سے ملک صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سمگلنگ کی لعنت پر قابو پانے کی تدابیر کی جائیں اس لئے نہیں کہ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے کاروباری سرگرمیوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان پر قابو پانے کیلئے رینجرز کو حکومت اور عوام کی طرف سے بھرپور سپورٹ دی جائے۔ شور اس لئے بھی نہیں اٹھا کہ تمام سیاستدان کاروباری طبقہ کی طرح پورا ٹیکس دیا کریں۔ شور اس لئے بھی نہیں اٹھا کہ آبادی کے لحاظ سے ملک میں ہسپتال کم ہیں۔ حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اس لئے تمام پارلیمنٹرین اپنے اپنے حلقہ میں ایک ایک ہسپتال اپنے ذاتی وسائل سے بنوائیں جن میں ادویات کے اخراجات برداشت کر کے عوام کی خدمت کا حق ادا کریں اس لئے نہیں کہ بجلی کی شدید قلت پر قابو پانے کیلئے سابقہ حکومت نے ڈیم تعمیر نہیں کیا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں پیچیدہ الجھنیں پیدا کر کے اسے سردخانے میں ڈال گئے ہیں۔ موجودہ حکومت تمام الجھنوں کو دور کرے اور کالاباغ ڈیم پر کام شرع کرائے۔ اگر سیاست دانوں کو ان تمام منصوبوں میں سے کسی ایک پر بھی کام شروع کرانے کیلئے احتجاج کرنا مطلوب ہوتا تو کاروباری طبقہ ایسے مفاد عامہ کے تعمیری کام کیلئے پیش پیش ہوتا۔ دامے درمے سخنے بھر پور کردار ادا کرتا۔ بدقسمتی سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سیاستدانوں کو تعمیر سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ عوام کیلئے روزگار کے مواقع تلاش اور پیدا کرنا اور ان کیلئے روزی روٹی کا اہتمام کرنا ان کا مقصد نہیں روٹی کپڑا اور مکان کی باتیں سیاست دان صرف الیکشن کے موقع پر کرتے ہیں۔ وہ نعرہ بھی فرسودہ ہو گیا ہے۔ کالا باغ ڈیم بننے یا نہ بنے۔ صنعتوں کیلئے وافر اور سستی بجلی حاصل ہو یا نہ ہو۔ انہیں کالاباغ یا سبز باغ سے کوئی غرض نہیں۔ تمام منفی سرگرمیوں سے سیاستدانوں کا واحد مقصد یہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم نہ رہیں۔ ملک میں اس قدر شور اور بدامنی پیدا کر دی جائے کہ ملک کا کوئی طاقت ور ادارہ آئے۔ میاں نواز شریف کو اٹھا کر کسی مخصوص سیاستدان کو کرسی پر بٹھا دے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
موجودہ شور پانامہ پیپرز کے حوالہ سے اٹھا ہے جسے خواہ مخواہ وزیراعظم کی ذات پر چسپاں کرنے کی ناکامی کوشش جارہی ہے۔ شرافت اور صاف ستھری سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی تقریری میں اعلان کردہ وزیراعظم کے موقف کو تسلیم کرلیا جائے۔ پھر بھی شک و شبہ کی گنجائش ہو تو تھوڑا انتظار کرلیا جائے۔ چیف جسٹس کے اعلان کردہ عدالتی کمیشن کے سامنے اپنا کیس پیش کردیا جائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائیگا لیکن اگر کمیشن کی ہیئت پر اعتراض شخصیات پر اعتراض۔ ممبران کے بچے کہاں پڑھے اور بیوی کیا کرتی ہے۔ انکے رشتے دار کہاں کہاں رہتے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں۔ اس پر اعتراض کہ کمیشن کہاں بیٹھے گا۔ اسکے ہمسائے میں کونسا دفتر ہوگا۔ کل کو کمیشن ممبران کے اٹھنے بیٹھنے پر اعتراض اس طرح میں نہ مانوں کا تکرار جاری رہے گا۔ بڑی مشکل سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور کاربار کیلئے حالات سازگار بننے لگے ہیں۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا انقلاب آفرین منصوبہ شروع ہوچکا ہے۔ بجلی بنانے کیلئے متعدد پراجیکٹس زیر تعمیر و تکمیل ہیں۔ لاہور میں ٹریفک کا تیز ترین پراجیکٹ اورنج ٹرین پر تیزی سے کام شروع ہے۔ تقریروں سے حکومت بدلنے اور حاصل کرنے کا وقت گیا۔ اب کارکردگی کی بنیاد پر کامیابی مقدر بنے گی۔ ٹرانسپورٹ کو بین الاقوامی جدتوں سے آشنا کرنیوالے منصوبہ اورنج ٹرین کی پانچ پانچ گھنٹے سپرویژن میاں محمد شہباز کریں لیکن الزامات کی بوجھاڑ کی وجہ سے حکومت کسی اور دے دی جائے۔ پاکستان کے عوام اپنا برا بھلا سب جانتے ہیں۔ حکمران وہی رہے گا جو خدمت کا خوگر ہو گا۔