کمشن بنانے کا اعلان ہو چکا‘ ٹی او آرز نہ ماننا دوغلاپن ہے: شہباز شریف
لاہور (خصوصی رپورٹر) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے کمشن کا اعلان کر دیا ہے اور واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر میرا نام شامل ہوا تو میں معافی مانگ کر گھر چلا جائوں گا۔ وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد پانامہ لیکس پر اس طرح کی بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرانا بہت بڑا جرم ہے۔ سٹیٹ بنک کے پاس قرضوں کو معاف کرانے والوں کی فہرستیں موجود ہیں، کمشن کو اس بارے میں سالہا سال تحقیقات نہیں کرنا پڑیں گی بلکہ کمشن منٹوں میں فیصلہ دے سکتا ہے۔ قوم قرض معاف کرانے والے سیاستدانوں سے بھی حساب مانگتی ہے۔ آج جمہوریت اور شفافیت کے چیمپئن بننے والوں کا رویہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ ٹی او آرز پر ذاتی مفادات کی خاطر تنقید کرنے والے منافقت اور دوغلے پن کی انتہا کر رہے ہیں۔ ٹی او آرز پر تنقید کرنے والوں کا واویلا چور مچائے شور کے مترادف ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ وزیراعلیٰ نے ان خیالات کا اظہار آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر سرمد علی کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات میں اخباری صنعت کو درپیش مسائل اور ملکی صورتحال پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے اے پی این ایس کیصدر سرمد علی، سیکرٹری جنرل عمر مجیب شامی اور دیگر نومنتخب عہدیداروں کو مبارکباد دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ اے پی این ایس کی موجودہ قیادت اسی مشن کو مزید آگے بڑھائے گی جس کیلئے صحافی برادری نے بے پناہ جدوجہد کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے اخباری صنعت کے مسائل کے حل کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کے سربراہ ترجمان پنجاب حکومت زعیم حسین قادری ہونگے اور اس کمیٹی میں محمد مالک، سیکرٹری اطلاعات اور ڈی جی پی آر بھی شامل ہونگے۔ وزیراعلیٰ نے اے پی این ایس کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر انتہائی دکھ اور افسوس ہوا ہے۔ میں نے واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی انکوائری کیلئے تشکیل دیدی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ ٹی او آرز میں بینکوں سے قرضے معاف کرانے والوں کی تحقیقات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سابق ادوار یا موجودہ دور کے عہدوں پر رہنے والے سیاستدانوں کے بارے میں بھی قرض معاف کرانے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ 2002ء 2004 میں کروڑوں روپے کے قرضے معاف کرائے گئے، ان سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ اس چکی میں جو بھی آئے اسے اپنا حساب دینا ہو گا۔ آیئے اس لمحے کو سچ جاننے کے نادر موقع میں بدل دیں۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ ہمیں کس نے لوٹا اور اس کا کیا احتساب ہوا؟ انہوں نے کہا کہ 2006-7 میں اس وقت کی حکومت نے چنیوٹ کے معدنی ذخائر کے حوالے سے تاریخ کی سب سے بڑی ڈاکہ زنی کی تھی۔ جعلی کمپنی بنا کر ڈاکہ ڈالا گیا لیکن اب بڑی بڑی شخصیات کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے اور قانون حرکت میں آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس کی دھرنا سیاست نے بھی پاکستان کی معیشت کو تباہ برباد کر دیا تھا، اب چین نے پاکستان کا ہاتھ تھاما ہے تو ایک بار پھر یہ عناصر خوشحالی اور ترقی کو روکنے کے درپے ہیں۔ انہورں نے کہ لاہور میں خطے کا پہلا سٹیٹ آف دی آرٹ سیف سٹی پراجیکٹ بنے گا۔ اے پی این ایس کے وفد نے اخباری صنعت کے مسائل کے حل اور اشتہارات کی شفاف پالیسی پر محکمہ اطلاعات اور ڈی جی پی آر کے اقدامات کو سراہا۔ وفد کے سربراہ سرمد علی نے کہا کہ آپ کی قیادت میں محکمہ اطلاعات اور ڈی جی پی آر مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کسی اور صوبے میں ایسا فعال اور متحرک محکمہ اطلاعات اور ڈی جی پی آر نہیں۔ عمر مجیب شامی نے کہا کہ اشتہارات کی تقسیم انتہائی شفاف ہے، پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے زرعی شعبہ کی ترقی اور کاشتکاروں کی خوشحالی کیلئے ایک سو ارب روپے کا تاریخی پیکیج دیا ہے۔ آئندہ 2 برس اس پیکیج پر عملدرآمد سے کسانوں کی ترقی اور زراعت کے فروغ پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ زرعی پیکیج کی ایک ایک پائی کاشتکاروں کی فلاح و بہبود پر صرف کی جائے گی۔ 100 ارب روپے کے تاریخی پیکیج کا بنیادی مقصد چھوٹے کاشتکاروں کی مشکلات کم کرنا اور فی ایکڑ پیداوار بڑھانا ہے۔ زرعی پیکیج کے تحت کسانوں کی خوشحالی اور زرعی شعبہ کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کا جلد اعلان کیا جائے گا اور اس پیکیج کے تحت کسانوں کو ان کی دہلیز پر ریلیف فراہم کریں گے۔ کسان کی خوشحالی سب سے زیادہ مقدم ہے۔ کاشتکاروں کو ریلیف کی فراہمی کیلئے ہرممکن اقدام اٹھائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے ان خیالات کا اظہار اعلیٰ سطح کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 5 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں زراعت کی ترقی اور کسانوں کی خوشحالی کیلئے اعلان کردہ زرعی پیکیج 2016ء پر عملدرآمد کیلئے تجویز کردہ اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ نے صوبے کے دور دراز علاقوں میں دیہی و بنیادی مراکز صحت میں ڈاکٹروں کی کمی کو دور کرنے اور بہترین طبی سہولتوں کی فراہمی کے لئے اقدامات کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت ان مراکز میں ڈاکٹروں کی بھرتی کے لئے عمر کی حد میں رعایت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کنسلٹنٹس کی بھرتی کے لئے بھی اسی طریقہ کار پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے جنوبی پنجاب میں بائیو میڈیکل ورکشاپ کے قیام اور ہسپتالوں و دیہی و بنیادی مراکز میں ہیلتھ کونسلز بنانے کی بھی منظوری دی۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ کی زیرصدارت اجلاس میں پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ و ریسرچ سنٹر کے منصوبے پر پیش رفت اور دیگر متعدد امور کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ و ریسرچ سنٹر ملک کی تاریخ کا منفرد اور بڑا اہم منصوبہ ہے اور یہ ادارہ صحت کی معیاری سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔