طالبان نے وفد پاکستان بھیجنے کی تصدیق کردی: روس نئے فارمیٹ کے تحت مذاکرات میں شرکت پر آمادہ
قطر+کابل (بی بی سی) افغان طالبان نے مذاکرات کے لئے اپنا وفد پاکستان بھجوانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان عوام کے پاکستان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور پاکستانی حکام سے ملا برادر کی رہائی کی بات کی جائے گی۔ افغان طالبان نے ایسے وقت اپنا وفد پاکستان بھجوانے کی تصدیق کی ہے کہ جب گذشتہ ہفتے کابل میں ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سے بھرپور مقابلے کا عندیہ دیا تھا۔ دوسری جانب مبصرین کے خیال میں پاکستان نے افغان طالبان پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ امن مذاکرات میں حصہ لیں۔ بی بی سی کے ذرائع کے مطابق قطر میں مقیم افغان طالبان کا وفد افغان حکومت سے براہ راست بات چیت کے لیے منگل کو کراچی پہنچا تھا تاہم پاکستان کے دفترخارجہ نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ طالبان کے قطر میں موجود دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ وفد پاکستانی حکام سے افغان طالبان کے رہنما ملا برادر سمیت جیل میں قید دیگر افراد کی رہائی کے لیے بات کرے گا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ طالبان کا وفد پاکستانی حکام سے افغان مہاجرین اور سرحدی علاقوں کے مسائل پر بھی بات ہوگی۔ بی بی سی کے ذرائع کے مطابق قطر سے آنے والے افغان طالبان کے وفد میں ملا شہاب الدین دلاور اور ملا جان محمد شامل ہیں جبکہ کچھ طالبان رہنما پاکستان سے اس مصالحتی عمل میں افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ افغان طالبان نے اپنے بیان میں یہ ذکر نہیں کیا کہ اْن کا وفد اسلام آباد میں افغان حکام سے ملاقات کرے گا یا نہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے مفاد میں نتیجہ خیز ثابت ہو گا۔ یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پارلیمان میں طالبان سے مذاکرات پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ اْنہیں پاکستان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرے۔ اشرف غنی نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اچھے اور برے دہشت گردوں کی تفریق کے بغیر تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ رائٹرز کے مطابق افغانستان میں روس کے سفیر زامر قبولوف نے روسی خبررساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس افغان امن عمل کا حصہ بننے کیلئے تیار ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات میں شامل ممالک کے مفادات کا خیال رکھا جائے تو روس بات چیت میں شرکت کر سکتا ہے۔ روس کے مطابق امن مذاکرات کا موجودہ طریقہ بے کار ہے جس میں 4 ممالک کا گروپ امریکہ، چین، پاکستان اور افغانستان شامل ہیں۔ روس اس طریقہ کے تحت مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گا تاہم نئے طریقہ کار کے تحت حصہ لیں گے۔ دریں اثناء ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے کہا ہے کہ طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان امن بات چیت کے سلسلے کو دوبارہ شروع کرنا بہت ضروری ہے اور اِس عمل میں روس کا شامل ہونا مفید ہو سکتا ہے۔ جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق روسی دارالحکومت ماسکو میں صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد ازبک صدر نے کہا کہ افغانستان کا عدم استحکام سارے خطے اور ہمسایہ ملکوں میں پھیل کر ان میں بھی انتشار اور افراتفری کی کیفیت پیدا کر سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر افغانستان کے امن عمل میں روس کو شامل نہیں کیا جاتا تو یہ بے فائدہ اور ناپائیدار ثابت ہو سکتا ہے۔