اللہ کے نام لے کر جھوٹی شہادت دینے سے عذاب آتے ہیں‘ ایسے گواہوں کو جیل بھیج دینا چاہیے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پرائمری سکول کے ہیڈماسٹر کے قتل کے الزام میں عمر قید پانے والے ملزم کامران وارث کو ناقص شہادتوں کی بنیاد پر بری کرنے کا حکم دیدیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ گواہی سچی ثابت نہ ہونے پر جھوٹے گواہ کو 25 سال کے لئے جیل بھیج دینا چاہئے، دو چار جھوٹے گواہوں کو عدالتیں جیل بھیجیں گی تو جھوٹی شہادتوں سے اجتناب کریں گے، ہمارے ملک میں بدقسمتی سے چشم دید گواہ شہادت نہیں دیتے جس کی وجہ سے جھوٹی شہادتوں پر اصل مجرم بری ہو جاتے ہیں، ملزم جھوٹی گواہی سے بری ہوتے ہیں ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے کہا جاتا ہے عدالتیں انصاف نہیں کرتیں، جھوٹی گواہی دینے والے لوگ اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے، جھوٹی شہادت دینے والوں کو شرم آنی چاہئے، اللہ کا نام لے کر جھوٹی گواہی دینے کی وجہ سے عذاب آتے ہیں، ملک میں اصل ملزموں کا جھوٹی گواہیوں کی وجہ سے بری ہونا اللہ کا عذاب ہے، عدالت شہادتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہے، اکثر مقدمات میں شہادتوں پر شکوک ہونے کے باوجود عدالت کو قانون اور دستیاب شہادتوں پر فیصلہ کرنا پڑتا ہے، درخواست گزار ملزم کامران وارث کے وکیل نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ میرے موکل پر قتل کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا ہے، گواہوں کی موجودگی پر شک ہے مقدمہ کے گواہ بعد میں بنائے گئے ہیں، گواہوں کا تعلق جائے وقوع سے 16 کلومیٹر دور کے علاقے سے ہے، بھرے بازار میں قتل ہو اور وہاں موجود کسی نے نہ دیکھا ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ میرے موکل کو جھوٹے گواہوں کی شہادتوں کی بنیاد پر سزائے موت اور پھر عمر قید سنائی گئی، ملزم کامران وارث کو بری کیا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مقدمہ کے گواہوں پر عدالت کو شکوک ہیں ایسا لگتا ہے یہ گواہ بعد میں بنائے گئے، بھرے بازار میں قتل ہو کیسے ممکن ہے وہاں موجود لوگوںکو نظر نہ آئے۔ ہیڈماسٹر کے قتل کے الزام میں قید ملزم کو چھوڑنے کا دل نہیں کرتا لیکن جھوٹی گواہیوں نے چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ گواہوں کو اس واقعہ کا علم تھا، اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا پورے گاﺅں کو علم ہو گا تاہم گواہی کوئی نہیں دیتا، یہ گواہ بعد میں بنائے گئے ہیں۔
جسٹس آصف سعید