جوڈیشل کمشنز کی تاریخ مایوس کن، کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی
اسلام آباد (جاوید الرحمن/ دی نیشن رپورٹ) حکومت نے پانامہ پیپرز پر جوڈیشل کمشن بنانے کی ہدایت تو کر دی ہے مگر اس نے اب تک ایبٹ آباد کمشن، لاپتہ افراد اور دیگر مسائل پر بنے کمشنز کی رپورٹ سامنے لانے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے نہ صرف کمشن بنانے بلکہ اس کی رپورٹ منظر عام پر لانے کیلئے ضروری قانون سازی پر بھی زور دینگی۔ پاکستان کی تاریخ میں اہم مسائل پر بننے والے کمشنز کی تاریخ مایوس کن ہے۔ ان کمشنوں کی رپورٹس کبھی بھی سامنے نہیں لائی گئیں۔ ہائی پروفائل کیسز کیلئے حمود الرحمن کمشن سمیت کئی کمشنز بنے مگر ان کی رپورٹس سامنے نہیں لائی گئیں۔ میڈیا تک سامنے آنے والی ان کمشنز کی تجاویز پر بھی ان کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ایبٹ آباد کمشن نے جنوری 2013ء میں اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی تھی۔ کمشن نے مختلف شعبوں کے 201 افراد کے انٹرویو کئے تھے۔ اس کمشن کا ٹاسک اسامہ کی ہلاکت کی تحقیقات کرنا تھا۔ لاپتہ افراد پر بننے والے کمشن نے بھی اپنی رپورٹ تیار کر لی ہے مگر اسے ابھی وزیراعظم کو پیش نہیں کیا۔ کمشن کو 15 ستمبر 2015ء تک توسیع بھی دی گئی تھی۔ کمشن کے سر براہ نے ’’ دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ رپورٹ وزیر اعظم کی سیکرٹریٹ میں جمع کرانے کیلئے تیار ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا موقف ہے کہ کمشن کی تحقیقات پر عمل کرنے کیلئے حکومت کو قانون سازی بھی کرنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی شیریں مزاری نے کہا ہے کہ 1956ء کے ایکٹ کے تحت بننے والے تمام کمشن بے ضرر تھے۔ یہی وجہ ہے اس بار ہم ٹی او آرز اور فرانزک آڈٹ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ حکومت کو نتائج عوام کے سامنے بھی لانے ہونگے۔