• news

میرٹ پر بروقت فیصلے ہونے چاہئیں، عدالتی نظام بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتمام حاصل نہیں کر سکاغ جسٹس عمر عطا

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ آن لائن ) سپریم کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پاکستان کا جوڈیشل سسٹم انصاف کی فراہمی کے لیے پر عزم ہے ، عدالتوں کو میرٹ پر بر وقت فیصلے کرنے چاہئیں، بدقسمتی سے ہمارا عدالتی نظام اپنے فیصلوں کے ذریعے بیرون ممالک کے سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا، بیرون ممالک کے سرمایہ کار سوچتے ہیں کہ وہ اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں، وہ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں اس کی بنیادی وجہ مقدمات کا زیادہ ہونا ہے، سپریم کورٹ میں 17ججز ہیں ہم ایک ماہ میں اتنے مقدمات کے فیصلے دیتے ہیں جتنے امریکہ کی سپریم کورٹ ایک سال میں بھی نہیں دیتی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یہاں سپریم کورٹ بار اور ایم سی میئر چیمبر آف یو کے کے زیراہتمام مقدمہ بازی اور ثالثی کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سپریم کورٹ بار کے صدر بیرسٹر سید علی ظفر سمیت دیگر سینئر وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پاکستان کے جوڈیشل سسٹم کی صورتحال پڑوسی ملک بھارت سے بہت بہتر ہے، دونوں ممالک کے مسائل میں ہم آہنگی ہے ، لیکن ہمارے ملک میں ازخود نوٹسز کی تعداد بھارت سے زیادہ ہے۔ پاکستانی عدالتی نظام کے دو بنیادی اصول ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ پاکستان میں ملزموں کو شفاف ٹرائل کا حق دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ شفافیت کے عمل پر عمل پیرا ہے، جہاں سسٹم کو شارٹ سرکٹ کیا جائے گا عدلیہ مداخلت کرے گی۔ ہم دلائل کے ذریعے مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ہمیں عدالتی نظام کو بہتر بنانا ہو گا، مقدمات میں موجود پیجیدگیوں کو دور کرنے کے لیے نظام وضع کرنا ہو گا ، پاکستان میں دو قسم کے کیسز ہیں جن میں پرانے اور نئے شامل ہیں، پرانے کیسز میں ہماری کاکردگی بہتر ہے، نئے مقدمات میں دلائل اور دیگر عوامل پر وقت لگتا ہے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے کیلئے ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عائلی اور سول مقدمات کو ثالثی کے ذریعے نمٹانے میں وکلاء کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید علی ظفر نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ثالثی ہمارے عدالتی نظام میں کوئی نئی چیز نہیں بلکہ اس شعبہ کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا کہ حکومتی سنجیدگی سے دیوانی اور فوجداری قوانین میں اصلاحات کر رہی ہے، اس حوالہ سے وزارت قانون، وکلاء کی ٹیم کام کر رہی ہے، اس حوالے سے معاملہ قائمہ کمیٹی میں بھی زبرثحت ہے۔ تقریب میں پروفیسر خاور قریشی، غیرملکی مہمان ڈیوڈ فوسٹر، ہرمیس مرنگوس، جوزف ٹیراڈو، جوزف ڈائک نے بھی شرکت کی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر مقدمے میں پہلا انصاف وکلاء نے کرنا ہے اور سول مقدمات میں وکیل بیٹھ کر ثالثی کے ذریعے حل نکال سکتے ہیں، جج صرف اس کا جائزہ لے گا کہ کہیں جانبداری تو نہیں ہوئی ہے لیکن اس کیلئے اربٹریشن ایکٹ میں ترمیم کرنا ہو گی۔ جج ہمیشہ وکلاء کی معاونت سے فیصلے کرتے ہیں۔ بہترین معاونت کے نتیجے میں بہتر فیصلے سامنے آتے ہیں۔ جب مقدمے میں دو وکلاء خود کو متحارب فریق نہ سمجھے اور صرف یہ بات ذہن میں رکھیں کہ انہوں نے معاملہ حل کرنا ہے تو پھر فیصلہ آسان ہو جاتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن