• news
  • image

ہیوی ویٹ مولانا فضل اُلرحمن ؟

مولانا فضل اُلرحمن کے کوٹے میں جمعیت عُلماءاسلام (ف) کے مولانا محمد خان شیرانی سابق صدر جناب آصف زرداری کے دَور سے لے کر اب تک اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ہیں اور (اپنے مسلک کے مطابق) پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ مولانا شیرانی اور کونسل کے دوسرے ارکان کی طرف سے 27 اپریل کو سود کے خاتمے اور پاکستان میں اسلام کا معاشی نظام نافذ کرنے پر عام مسلمانوں کو تو کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن اگر پارلیمنٹ مولانا شیرانی اور اُن کی کونسل کی سفارشات نہیں مانتی تو وہ کیا کریں گے ؟۔

اشرفی پر قائدِاعظم کی تصویر؟
میڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ ”کاغذ کی کرنسی (سکہ¿ رواں) ٹھوس نہیں ہے۔ شرعی اور اصلی کرنسی سونے کی ہے“۔ مولانا شیرانی چاہتے ہیں کہ ”کاغذ کی کرنسی کے بجائے پاکستان میں سونے کی اشرفی بطور کرنسی جاری کی جائے“۔ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا ہمارے قومی خزانے میں اتنا سونا ہے کہ جِسے ٹکسال میں ڈھال کر اُس کی اشرفیاں بنا دی جائیں اور اُن کے بدلے ہر پاکستانی سے کاغذی کرنسی لے کر اُسے تلف کر دِیا جائے؟۔ مَیں نے ” غیاث اُللغات“ میں پڑھا ہے کہ ”پرانے زمانے میں کسی ملک کے ”اشرف“ نامی بادشاہ نے دس ماشے کا سونے کا سکّہ جاری کِیا تھا جو ” اشرفی“ کہلایا۔ اشرف بادشاہ پابندِ شریعت تھا یا نہیں؟ مَیں نہیں جانتا۔
متحدہ ہندوستان میں بھی بعض بادشاہوں کے دَور میں سونے کی اشرفی (بطور سکہ¿ رواں) چلتی رہی۔ مجھے اِس بات پر بھی اعتراض نہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی پاکستان کی حمایت کرنے والے دیو بند عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی کے نام پر اشرفی کا ”شرعی اور اصلی“ سکّہ جاری کرالیں۔ لیکن اُس سے پہلے اُنہیں مولانا اشرف علی تھانوی کی نسبت سے مولانا طاہر اشرفی سمیت تمام عُلماءکو بھی راضی کرنا ہوگا اور میری ننھی سی خواہش پر اِس بات کی گارنٹی بھی دینا ہوگی کہ ”سونے کی اشرفی پر بھی قائدِاعظم کی تصویر ہوگی“۔
عشق کی دیوار توڑئیے!
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے رحیم یار خان میں انڈسٹریل اسٹیٹ کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے‘ بے چارے عوام کو مشکل میں مُبتلا کردِیا ہے جب اُنہوں نے فرمایا کہ ”ترقی اور خوشحالی کے مخالف عناصر کے خلاف عوام سِیسا پلائی دیوار بن جائیں!“ لیکن جنابِ وزیراعلیٰ نے یہ ترکیب نہیں بتائی ”لاغر‘ کمزور اور بے روزگار عوام کو سِیسا پلائی دیوار کیسے بنالیں؟ اِس لئے کہ سِیسا تو بہت ہی قیمتی دھات کو کہا جاتا ہے اور سِیسا پلائی دیوار کو کھڑا کرنے میں بھی بہت وقت چاہیے۔ استاد ذوق نے آج کے دَور کے عوام کے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ
”لگے سِیسا پلانے‘ مجھ کو آنسو
کہ ہو بُنیادِ غم‘ محکم ابھی سے“
عوام کو سِیسا پلائی دیوار بننے کے لئے پہلے حکمرانوں کو اور عوام کے درمیان کھڑی دیوار کو گرانے کی ضرورت ہے۔ حضرت داغ تو عاشق تھے جب اُنہوں نے اپنے محبوب سے شکوہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
”مَیں ہُوں سکتے میں‘ وہ ہے عشق سے حیراں
دیوار کھڑی ہوگئی دیوار کے آگے!“
میاں شہباز شریف تو اپنی تقریروں میں اشرافیہ کو یہ کہہ کر اکثر ڈرایا کرتے ہیں
”بندِ نقابِ عارضِ دِلدار توڑئیے!
باغِ مرادِ عشق کی دِیوار توڑئیے“
”ہیوی ویٹ مولانا فضل اُلرحمن“
خبر ہے کہ ”ناشتے کی میز پر جنابِ وزیراعظم کی طرف سے مولانا فضل اُلرحمن کو مُرغّن کھانے پیش کئے گئے۔ مولانا کو "Food Poisoning" (سُو¿ ہضم) ہو گیا۔ معدے میں سُوجن ہو گئی اور پیٹ خراب ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے مولانا صاحب کو سادہ خوراک کھانے اور آرام کا مشورہ دِیا ہے“۔ اُدھر سیاسی مبصرین کا تبصرہ ہے کہ ”مولانا فضل اُلرحمن ایک "Heavyweight" (معمول سے زیادہ وزنی یا بارسوخ) سیاستدان ہیں اور اُنہوں نے پانامہ لِیکس کے معاملے میں اپنا سارا وزن وزیراعظم نوازشریف کے پلڑے میں ڈال دِیا ہے“۔ مولانا کے پیٹ کی خرابی، معدے کی سُوجن کے بارے میں فوری طور پر تحقیق کرانے کی ضرورت ہے۔ اِس لئے کہ مولانا صاحب چیئرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے ایک بڑا وفد لے کر جنوب افریقہ اور قطر کے دورے پر تشریف لے گئے تھے اور روانگی سے پہلے اُنہوں نے فرمایا تھا کہ ”مَیں ان دونوں ملکوں کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کے مو¿قف کا حامی بنانے کی کوشش کروں گا“۔
مسئلہ یہ ہے کہ مولانا صاحب مکمل طور پر صحت یاب ہونے سے پہلے وہ زیادہ وزنی سیاستدان کی حیثیت سے اپنا وزن جنابِ وزیراعظم کے پلڑے میں کیسے ڈال سکیں گے؟۔ نہ صِرف سیاست بلکہ شعر و شاعری میں بھی ”وزن“ کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے۔ علاّمہ اقبال نے بھی ”جمہوریت میں وزن کو خاص اہمیت دیتے ہُوئے کہا تھا کہ
”جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جِس میں
بندوں کو گِنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتے!“
مَیں تو اقبالیات کے ادنی طالبعلم کی حیثیت سے یہی سمجھا ہُوں کہ اگر علاّمہ اقبال آج کے دَور میں ہوتے تو وہ اپنا اثر و رسوخ جناب پرویز خٹک کے بجائے مولانا فضل اُلرحمن (یا اُن کے کسی ہم وزن مولانا صاحب) کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلیٰ بنوانے میں استعمال کرتے۔ یوں بھی مولانا فضل اُلرحمن "Give And Take" کی سیاست کرتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا
”جِس کو ہو‘ جان و دِل عزیز
اُس کی گلی میں جائے کیوں؟“
میرا ذاتی خیال ہے کہ ”اُس کی گلی میں“ مرزا صاحب کی مراد ”سادگی سے سیاست کرنے والوں سے تھی“۔ مسئلہ یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف خوش خوراک ہیں اور اچھے میزبان بھی اور مولانا فضل اُلرحمن خوش خوراک اور اچھے مہمان ۔ پھر پیٹ کی خرابی کیا؟ اور معدے کی سُوجن کیا؟۔ کم کھا کر اچھے میزبان کا دِل توڑنا بھی تو مناسب نہیں ہوتا۔ جماعتِ اسلامی کے ایک لیڈر امیر اُلعظیم 2002ءکے عام انتخابات سے پہلے متحدہ مجلس عمل کے قائدین، کے خطابات سنوانے کے لئے مجھے اسلام آباد سے پشاور، نوشہرہ اور چارسدّہ لے گئے تھے ۔ وہاں مجھے مولانا فضل اُلرحمن ، مولانا شاہ احمد نورانی اور قاضی حسین احمد کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف بھی حاصل ہُوا ۔
مولانا فضل اُلرحمن اور مولانا شاہ احمد نورانی نے کھانے سے پورا انصاف کِیا لیکن‘ قاضی حسین احمد نے میزبانوں کو مایوس کِیا۔ مَیں نے دیکھا کہ اُن دنوں ایم ایم اے کے قائدین میں سے کسی ایک کا بھی پیٹ خراب نہیں ہُوا اور نہ ہی معدے میں سوجن ہوئی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ 28 اپریل کو وزیراعظم صاحب کی طرف سے مولانا فضل اُلرحمن کی خدمت میں ناشتہ پیش کرنے والے کسی ملازم کا دلی تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہو اور اُس نے مولانا صاحب کی خوش خوراکی کی آڑ میں یہ نازیبا حرکت کی ہو۔ اس موقع پر
”ساقی نے کچھ مِلا نہ دِیا ہو شراب میں!“
کا مصرع عرض کرنا بدتہذیبی ہو گی کیونکہ جنابِ وزیراعظم اور مولانا صاحب ”اُمّ اُلخبائث“ کو اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ بہرحال مولانا فضل اُلرحمن کی وطن واپسی اور واپسی پر وزیراعظم ہاﺅس میں ناشتے کے بعد جتنے مُنہ اتنی باتیں“۔ ”شاعرِ سیاست“ نے میری وساطت سے جنابِ وزیراعظم اور محترم مولانا فضل اُلرحمن کی خدمت میں عرض کِیا ہے
”کچھ تنازع ہی نہیں تھا‘ ریٹ کا
مسئلہ معمولی تھا‘ بَس پیٹ کا
کُھل گیا دروازہ‘ پِچھلے گیٹ کا
ذکر ہے‘ مولانا ہیوی ویٹ کا“

epaper

ای پیپر-دی نیشن