’’سیاسی مگر مچھ و بھکاری‘‘اور’شریف خاندان‘‘
میں اس وقت فلوریڈا( امریکہ) سے کالم لکھ رہا ہوں یہ فرمائشی کالم ہے اور نہ ہی اس کا مقصد کسی کے بے گناہی ثابت کرنا ہے پانامہ پیپرز لیکس کے حوالے سے الزامات کا جواب شریف خاندان خود ہی دے گا اسی طرح اس کے جواب میں لگائے جانے والے الزامات کا جواب عمران خان اور جہانگیر ترین دیں گے لیکن میرا سوال یہ ہے سوشل میڈیا پر ’’شریف خاندان ‘‘ کے خلاف تضحیک آمیز مہم کا مقصد کیا ہے؟ جب صبح موبائل دیکھتا ہوں تو’’ٹوئیٹر، فیس بک اور وٹس ایپ‘‘ پر آئے ہوئے سینکڑوں پیغامات کا تعلق شریف خاندان سے ہوتا ہے جن میں ان کی بدترین کردار کشی کی گئی ہوتی ہے اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) بھی ’’کاریگری‘‘ دکھاتی ہے ۔ دور حاضر میں سوشل میڈیا کے جہاں کئی فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں ۔ اب تو سیاسی جماعتوں نے اس’’ہتھیار‘‘ کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بے دردی سے استعمال کر نا شروع کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ سچی اور کچھ جھوٹی کہانیاں ہوتی ہیں لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے یہ کہانیاں مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہیں۔ ’’نا معلوم افراد‘‘ کے پاس شاید اور کوئی کام ہی نہیں انہوں نے کردار کشی پر مشتمل ’’قصے کہانیاں‘‘ اور ’’تصویرو کارٹون‘‘ جاری کرنے کی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں اور شاید اس ’’کارخیر‘‘ کا انہیں کوئی معاوضہ بھی ملتا ہو تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ سیاست میں جتنا گند سوشل میڈیا نے پھیلایا ہے شاید ہی کسی اور شعبہ نے ایسا کیا ہو۔ پانامہ پیپرز لیکس میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے صاحبزادوںحسن و حسین کے نام آئے تو انہوں نے تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کوخط لکھ دیا، وفاقی حکومت نے بھی کمال ہوشیاری سے تحقیقاتی کمیشن کے ایسے ٹی او آرز بنائے کہ شریف خاندان کے ساتھ وہ تمام لوگ بھی اس کے سامنے جواب دہ قرار دے دئیے گئے جنہوں نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے اپنے قرضے معاف کرائے ہیں یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں چھپے کرپٹ عناصر میں کھلبلی مچ گئی ہے جس کے باعث اپوزیشن جماعتوں کے موقف میں بھی تبدیلی آگئی ہے اور اب وہ صرف شریف خاندان کے احتساب کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جنہوں نے قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران سب سے پہلے اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کیا تھا اب وہ کمیشن کی زد میں آنے والے 200افراد کی بجائے صرف وزیر اعظم محمد نواز شریف اور ان کے خاندان کے احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز لیکس کی دوسری قسط 9مئی2016ء کو آرہی ہے جس میں400سے زائد پاکستانی سیاست دانوں اور تاجروں کے نام شامل ہیں سردست پانامہ پیپرز لیکس نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کا نام شامل نہیں۔ میری ذاتی رائے ہے کہ جس طرح ملکی سیاست میں کم و بیش نصف صدی تک بھٹوخاندان کا طوطی بولتا رہا ہے اسی طرح پچھلے35سال سے ملکی سیاست میں شریف خاندان چھایا ہوا ہے۔ کوئی بڑا سیاسی خانوادہ نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے سیاسی خانوادے ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹوکو جیتے جی کوئی سیاسی طور پر مار نہ سکا پھانسی کے تختے پر چڑھ کر وہ سیاسی طور پر امر ہوگئے۔ ان کا سحر ختم کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کے کئی اتحاد بنے لیکن آج بھی ذوالفقار علی بھٹو گڑھی خدابخش سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی ان کے کرپٹ جانشینوں نے مار دی اور آج ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ ’’دم چھلا بن کر کرپشن کے خلاف مہم کا حصہ بن رہی ہے اس وقت پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کا سب سے بڑا مسئلہ ’’نواز شریف کی مقبولیت‘‘ ہے انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم کو چوتھی بار وزیر اعظم بننے سے کیسے روکیں؟ اس لئے اپوزیشن کی سب ہی جماعتوں کا اصل ہدف ’’شریف خاندان ‘‘ ہے وہ میاں نواز شریف کو ہی اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں پاکستان کی سیاست میں یہ خوش آئند بات ہے۔ وزیر اعظم کے دونوں صاحبزادوں حسن وحسین نے نہ صرف اپنے آپ کو ملکی سیاست سے الگ رکھا بلکہ اپنا کاروبار بھی ملک سے باہر رکھا۔ انہوں نے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر سودے کرنے کی بجائے اپنی کاروباری سرگرمیاں جدہ اور لندن تک محدود رکھیں۔ شاید ہی پاکستان میں کسی سیاسی شخصیت کے پاس ان کا کوئی ٹیلی فون نمبر ہو یہی وجہ ہے آج نواز شریف حکومت کو تین سال ہونے کو ہیں ان کا کسی مالیاتی سکینڈل میں نام نہیں آیا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دونوں بھائی حسن و حسین گنگا جمنا نہائے ہوئے ہیں ان کو کورٹ آف لاء میں کھڑا تو ہونے دیں سب کچھ سامنے آجائے گا۔ ماضی قریب میں وزیر اعظم ہائوس میں سودے ہوتے تھے جن میں وزیراعظم کے صاحبزادوں کے نام لئے جاتے تھے۔ سیاسی مخالفین نواز شریف کی مزید دوسال تک حکومت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ آج یہی حسن وحسین پاکستان میں کاروبار کرتے تو ان کا یہ سب سے بڑا جرم بن جاتا، انہیں اسی طرح تنقید کا نشانہ بنایا جاتا جس طرح حمزہ شہباز اور سلیمان شہبازکو پاکستان میں کاروبار کرنے پر مطعون کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مرغی کی قیمت بڑھ جائے تو اس کا ذمہ دار بھی شریف خاندان کو قرار دیا جاتا ہے ۔اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ’’شریف خاندان کی بادشاہت‘‘ کو کس طرح ختم کرنا ہے اس لئے تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں انہیں شریف خاندان سے نجات حاصل کرنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ ’’نواز شریف دشمنی‘‘ نے ان جماعتوں کو مل بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے جو ایک دوسرے کانام سننے کے لئے تیار نہیں ۔ وہ جانتی ہیں کہ جب تک نواز شریف کی وکٹ نہیں گرتی وہ یہ کھیل جیت نہیں سکتیں لہذا وہ نواز شریف حکومت گرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں نواز شریف حکومت اسی صورت میں گرائی جا سکتی ہے کہ اپوزیشن کی کال پر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور اس وقت تک واپس نہ جائیں جب تک نواز شریف مستعفی ہو کر اقتدار سے الگ نہ ہو جائیں لیکن ان تلوں میں تیل نہیں۔ اپوزیشن کی کال پر ملک کا کاروبار رک سکتا ہے اورنہ ہی پہیہ جام ہو سکتا ہے لیکن اگر نواز شریف کال دیں تو کئی لیڈروں کا اپنے گھروں سے نکلنا مشکل ہو جائے۔ اپوزیشن قومی اسمبلی میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں نہیں، اپوزیشن کے پاس اپنی نشستوں سے مستعفی ہونے کا آپشن موجود ہے لیکن اس بارے میں اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں دوسری طرف نواز شریف بھی دبائو میں آکر استعفاٰ دینے والے نہیں اس لئے اپوزیشن کا یہ حربہ کامیاب نہیں دکھائی دیتا۔ اگر اپوزیشن نے مارشل لاء کی راہ ہموار کی تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اپوزیشن جماعتیں ٹی آرز کی آڑ میں تحقیقاتی کمیشن کو کام نہیں کرنے دینا چاہتیں اگر یہ عمل شروع ہو گیا تو اپوزیشن کے پاس کوئی سیاسی کا نعرہ نہیں رہے گا اپوزیشن جماعتوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جب کسی سیاسی لیڈر کو زبردستی اقتدار سے ہٹایا گیا وہ پہلے سے زیادہ قوت سے ہی برسر اقتدار آیا ہے لہذا کسی حکومت کو ووٹ کی پرچی سے ہی جانے کا راستہ دینا چاہیے جب تک نواز شریف لوگوں کے دلوں سے اتر نہیں جاتے س وقت انہیں کوئی سیاسی جماعت یا گروہ میدان سیاست سے نکال باہر نہیں کر سکتا۔سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کی سیاست ترک کرکے اپنا پروگرام لے کر عوام کے پاس جانا چاہیے پاکستان کا المیہ ہے کہ خود ٹیکس نہ دینے والے دوسروں سے ٹیکس کا حساب مانگتے ہیں جن کے اپنے نام پانامہ پیپرز لیکس میں آئے ہیں وہ دوسروں کے احتساب کا راگ الاپ رہے ہیں ۔جب تحقیقاتی کمیشن کے ٹی اور آرز میں قرضے معاف کرانے والے ’’سیاسی مگرمچھوں اور بھکاریوں‘‘ کو بھی احتساب میں شامل کیا گیا تو ان کی چیخ و پکار شروع ہو گئی ہے ۔جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ صرف شریف خاندان کو ہی سیاسی مقاصد کے لئے ٹارگٹ نہ بنایاجائے اسی طرح دوسرے خاندانوں کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے جس جس نے بھی پاکستان کی دولت کو لوٹا ہے قرض معاف کرائے ہیں اور منی لانڈرنگ کی ہے اسے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے جواب دینا چاہیے سردست حکومت جہانگیر ترین کے خاندان کے معاف کرائے گئے کروڑوں روپے کے قرضوں کی تفصیلات منظر عام پر لے آئی ہے اسی طرح کچھ اور ’’پردہ نشینوں ‘‘ کے نام بھی منظر عام پر آنے والے ہیں۔ پانامہ پیپرز لیکس کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامدنے تو کہہ دیا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی آرز میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جائے گی جب کہ اپوزیشن بھی تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نظر نہیں آ رہی ایسا دکھائی دیتا ہے حکومت اور اپوزیشن تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں اب دیکھنا یہ ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے درخواست ہے سیاست کے کھیل کو قواعد و ضوابط کے اندر ہی رہ کر کھیلا جائے کہیں پورے کھیل کی بساط ہی نہ لپیٹ دی جائے۔