کیا واقعی ہم اپنے ملک کے مالک ہیں؟
فلم ”مالک“ پر پابندی لگا دی گئی۔ اگر اس فلم کا نام ”غلام“ ہوتا ”ملازم“ ہوتا تو اسے کبھی بین نہ کیا جاتا۔ ہم عام لوگ غلام ہیں۔ ہم مالک ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے فلم مالک میں ایک منظر بار بار دکھایا گیا ہے جس میں لوگوں سے حلف لیا جاتا ہے۔ ہم اس ملک کے شہری ہیں اس لئے ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ آج تک حلف اٹھا کے کسی نے سچ بولا ہے۔
اس ملک کے حکمران اور افسران جو اس ملک کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ صرف ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ کوئی آدمی یہ سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ ایسا سوچنا بھی جرم ہے تو یہ فلم دیکھنا بھی ایک جرم ہے۔ یہ فلم بنانے والا عاشر عظیم تو بڑا مجرم ہے۔ اس کا حشر تختہ دار پر ہو گا۔ عاشر عظیم تیار رہو۔ تمہیں اس مالک کے جعلی مصنوعی اور جھوٹے مالک کبھی نہیں چھوڑیں گے تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی بیٹی نفیسہ شاہ نے اس حوالے سے بہت سطحی بیان دیا ہے۔
پہلے قلم پر پہرے بٹھائے جاتے تھے جس کے ہاتھ میں دلیری اور سچائی سے سچا ہوا قلم ہوتا تھا اس کا سر قلم کر دیا جاتا تھا۔ اب قلم کی بجائے فلم سے ڈرنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ مجھے خوشی ہوتی ہے کہ کوئی فلم ایسی بھی ہے جس نے حکمرانوں سیاستدانوں کو اتنا ڈسٹرب کیا۔ اتنا خوف زدہ کیا کہ اسے ضبط کر کے اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی۔
عاشر عظیم نے بہت دلچسپ بات کی کہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ بلوچستان میں کوئی سینما ہی نہیں تو پورے ملک میں کس طرح بغاوت کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں۔ فلم میں کرپشن کی نشاندہی کی گئی ظلم و ستم اورنا اہلی کو اجاگر کیا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بتایا گیا عام شہری اس ملک کا مالک ہے۔ جن کے ووٹوں سے سیاستدان اقتدار میں آتے ہیں اور پھر انہی کی ملکیت نوٹوں سے بیرون ملک اپنے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں۔
عاشر عظیم نے لوگوں کو سوچنے کی دعوت دی کیا یہ ممکن ہے کہ کسی فلم کو دیکھ کر آدمی اپنے ملک کے لئے سوچے اپنے حقوق کےلئے سوچے اور سوچے کہ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ مالک اور ملک میں گرائمر کے اعتبار سے رشتہ نہیں ہو گا مگر اب ملک اور مالک میں ایک رشتہ استوار ہو گیا ہے۔ ملک سے مالک ہے تو ملک سے بھی مالک ہو سکتا ہے۔ حکمران اور ان کے نوازے گئے کالم نگار کسی دوسرے کو مالک نہیں بننے دیں گے۔ وہ خود کو بھی مالک نہیں سمجھتے۔ مالک وہی ہے جس کے ہاتھ میں ملک سسک رہا ہے اور تڑپ رہا ہے ایسے میں عاشر عظیم اور ہم جیسے مجبور محکوم محروم اور مظلوم جو اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ ہمارا کیا بنے گا۔ کہ مالک نام کی فلم بھی برداشت نہیں ہوتی۔
ہمارے ملک میں فلم تباہ ہو گئی ہے کوئی فلم بنتی ہی نہیں بنتی ہے تو چلتی نہیں۔ ایسے میں ایک فلم کو لوگوں نے دیکھنے کے قابل سمجھا تو اس قابل غور معاملے کو اس طرح کے آمرانہ سٹائل میں برباد نہیں کرنا چاہیے۔ میں پاکستان کے جمہوری نظام کو جمہوری آمریت کا نام دیتا ہوں اور جمہوری آمریت تو آمریت سے بھی زیادہ بدصورت اور ظالمانہ ہوتی ہے۔
میں نے یہ فلم نہیں دیکھی۔ میں نے 25 سال سے پاکستانی فلم دیکھنا چھوڑی دی ہے۔ اب یہ فلم دیکھوں گا۔ اور مجھے کوئی حکومت یہ فلم دیکھنے سے روک نہ سکے گی۔ اب اگر کوئی بہتر فیصلے آتا ہے اور اس فلم پر سے پابندی ہٹائی جاتی ہے تو وہ لوگ بھی یہ فلم دیکھیں گے جو فلم نہیں دیکھتے۔
میں حیران ہوں کہ سنسر بورڈ نے یہ فلم پاس کر دی تھی اور یہ فلم سینماﺅں میں چل رہی تھی تو کس خوف کے نتیجے میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ عام لوگ جو اس ملک کے مالک ہیں۔ زندگی اور شرمندگی میں کچھ فرق نہیں کرتے۔ صرف درندگی کا سامنا کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں کہ ہم زندہ ہیں یا شرمندہ ہیں۔
میں بھی سنسر بورڈ کا ممبر رہا ہوں۔ فلموں کو سنسر بورڈ پاس نہیں کرتا۔ وہ تو صرف دستخط کرنے والے ڈمی لوگ ہوتے ہیں۔ فلموں کی منظوری کا معاملہ کہیں اور ہوتا ہے۔ نجانے اس ملک میں کیا کیا ہو رہا ہے؟ چند آدمی سب کچھ کرتے ہیں آخر میں یہ بات اعلانیہ کرتا ہوں کہ ہم خاک میں روندے ہوئے لوگ ہیں ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔ ہماری جیب خالی ہے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ اس ملک نے ہمیں صرف یہ احساس دیا ہے کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں ہم اس ملک کے شہری ہیں تو ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ ہم اس ملک کے مالک ہیں۔ تم ناجائز طور پر اس ملک کے مالک بنے ہوئے ہو ہم یہ ملک ناجائز وارثوں اور مالکوں سے چھین لیں گے۔ مگر کیسے؟