• news

استعفیٰ؟

میرے خیال میں ایک منتخب وزیراعظم سے اس طرح استعفیٰ کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے۔ بالعموم ہمارے وزیراعظم آئے تو سیاسی طریقے سے مگر گئے سیاسی طریقے سے نہیں۔ ایک صدر زرداری جمہوری طریقے سے آیا تھا۔ اپنی مدت اقتدار پوری کی اور پھر سیاسی طریقے سے چلا گیا۔ اس کے بعد ممنون حسین آ گئے۔ وہ اچھے آدمی ہیں۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے ایک اجلاس میں آئے تھے۔ تب صدر تارڑ بھی سٹیج پر تھے کہ وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں۔ تب میں نے کہا تھا کہ آج کی تقریب کے دو صدر ہیں۔ اب اثر چوہان ’’صدر‘‘ زرداری اور صدر ممنون حسین کے موازنے میں نہ لگ جائیں۔ وہ عمران خان کے علاوہ ’’صدر‘‘ زرداری سے اپنے ایک جملے کی رائلٹی مانگ رہے ہیں میری آٹھ نو کتابیں شائع ہوئی ہیں مگر ہم اب کتاب کی رائلٹی بھول چکے ہیں۔ برادرم اثر چوہان اپنے جملے کی رائلٹی مانگتے ہیں۔ یہ تو ہمارے زخموں کو سرسبز کرنے کی کارروائی ہے۔
جملہ ’’صدر‘‘ زرداری کے بارے میں اچھا ہے۔ پہلے ان کے لئے جملہ بنایا گیا جو باقاعدہ نعرہ بن گیا ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ اب جملہ یہ ہے مگر اب تک نعرہ نہ بن سکا۔ ’’اک زرداری سب سے یاری‘‘ یہ بھی ان کی صدارت کے زمانے کی یاد دلاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مدت پوری کی اور خوب پوری کی مگر کئی سیاسی حکمران ایسے ہیں جو اپنی مدت پوری کرتے ہیں جیسے ادھوری کرتے ہیں پوری اور ادھوری کو ایک کر دینا بھی کوئی سیاست ہی ہو گی؟
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ زرداری صدر تھے اس لئے مدت پوری کر گئے۔ کوئی وزیراعظم تو اپنی مدت پوری نہ کر سکا۔ یہ بھی ایک دلیل صدارتی نظام کے حق میں ہے۔ ہمارا مزاج شاید صدارتی ہے پارلیمانی نہیں ہے۔ یہ دیکھیں کہ اس بات میں کیا راز ہے۔ آج تک ایک بھی فوجی حکمران وزیراعظم نہیں بنا۔ سوائے صدر جنرل یحیٰی خان کے ایک بھی فوجی صدر نہیں ہے جس نے نو دس سال سے کم حکومت کی ہو۔ جب انہوں نے وزیراعظم لانے کی کوشش کی تو پھر اقتدار میں وہ خود بھی نہ رہ سکے۔ جنرل ضیاء نے دو وزیراعظموں کو چلتا کیا۔ ان میں ایک ان کا اپنا بنایا ہوا تھا۔
اس میں بھی زبردست بات نواز شریف کے حوالے سے ہے۔ وہ گئے تو ساتھ میں
صدر اسحاق کو بھی لے گئے۔ جس نے ان کی حکومت توڑی تھی۔
جب دھرنا دیا تھا عمران خان نے اور اسے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بنانے کی بات بھی ہوئی تھی۔ اس دوران ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کو آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بلایا تھا۔ تو یہ بات سامنے آئی تھی کہ دونوں نواز شریف کے استعفیٰ سے ہٹ جائیں۔ باقی سب مطالبے مان لئے جائیں گے۔ جبکہ سب لوگ نواز شریف کے جانے کے لئے باتیں کرنے لگے تھے۔ مگر وہ تیسری بار آگئے اگر عمران خان واقعی سیاستدان ہوتا تو اپنے اس مطالبے کو چھوڑ کر باقی باتیں منوا لیتا۔ اس طرح نظام کی بہتری کے لئے اس کا معاملہ تاریخی بلکہ تاریخ ساز بن جاتا۔ مگر اس سے عمران کی نیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ واقعی یہ چاہتا ہے کہ نواز شریف جائے اور میں آجاؤں۔ جو آتا ہے اسے جانا ہی ہوتا ہے مگر ہمارے سیاستدان اور حکمران اس بات پر دھیان نہیں دیتے۔
اسی لئے میں نے کالم کے آغاز میں کہا ہے کہ نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ مطالبہ نہ سیاسی ہے نہ جمہوری ہے۔ اب تو یہ بات بھی ایک مذاق بن گئی ہے کہ جب حکومت کا معاملہ آتا ہے تو ہمارے سیاستدانوں کو جمہوریت یاد آجاتی ہے۔ ان کے لئے سیاست حکومت اور جمہوریت ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اور وہ ہے اقتدار؟
انا اچھی چیز نہیں ہے۔ تو سیاسی انا بھی اچھی چیز نہیں ہے۔ انا انسان کو فنا کر دیتی ہے۔ انسان اگر سیاستدان ہو یا حکمران ہو تو اس کے زوال کو کمال حاصل ہو جاتا ہے۔ انا کے مقابلے استغنا ہے مگر اس پر غور کرنے کے لئے کوئی امیر کبیر اور وزیر شذیر بلکہ بے ضمیر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایک منتخب وزیراعظم بھٹو صاحب سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی غلط تھا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا۔ بھٹو صاحب اقتدار سے چلے گئے مگر انہوں نے استعفیٰ نہ دیا۔ اس کے نتیجے میں جمہوریت کا کیا بنا؟ جنرل ضیاء آ گیا اور ان کے اقتدار کا زمانہ سب سے طویل ہے۔ تحریک نظام مصطفیٰؐ کا فائدہ ’’صرف جنرل ضیاء کو ملا۔ نظام مصطفیٰ کا کیا ہوا؟
آج بھی جو لولی لنگڑی بے کار اور بے معنی سی جمہوریت ہے تو اس کا کریڈٹ بھی فوج کو جاتا ہے مگر یہ بھی ایک راز ہے کہ سیاستدان اور حکمران فوج سے ڈرتے ہیں۔ ایک یہی ادارہ ہے جو سیاستدانوں کی مار دھاڑ سے بچ گیا ہے تو ابھی تک سلامت ہے۔
جب کوئی جرنیل صدر پاکستان بنتا ہے تو سیاستدان بن جاتا ہے۔ جبکہ میرے خیال میں مسلمانوں کی تاریخ سپہ سالاروں کی تاریخ ہے۔ میری گزارش سپہ سالاروں سے ہے کہ وہ سیاست میں آئیں تو بھی سپہ سالار رہیں۔ سیاستدانوں لوگ ناامید ہو چکے ہیں۔ جرنیل بھی سیاستدان بن جائیں تو پھر لوگ کہاں جائیں۔ کاش ایسا ہو کہ سیاستدان ہی سچے سیاستدان بن جائیں۔ پھر وہ حکمران ہوں گے تو ان سے کوئی استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کر سکے گا۔ استعفیٰ کا مطالبہ ٹھیک نہیں ہے مگر جس سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ بھی تو سوچے کہ ایسا کیوں ہے؟

ای پیپر-دی نیشن